Sohail Shuja
Chief Minister (5k+ posts)
ڈاکٹر کو کون بچائے؟
اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، پچھلے دنوں سے ڈاکٹر شاہد مسعود کے جذبات سے لبریز پروگرام کو دیکھ کر پہلے تو بہت غصّہ آیا، اپنے تمام ایسے دوستوں کو جو ملک کے سیکیورٹی اداروں میں کام کرتے ہیں، باری باری فون کر کے میں نے حسب توفیق جتنی گالیاں نکال سکتا تھا، نکال دیں، وہ سمجھ گئے کہ مجھ پر ڈاکٹر صاحب پر گزرنے والی قیامت کا اثر ہو چکا ہے۔لہٰذا جلتی پر تیل ڈالنے کے لیئے صرف خاموشی سے سنتے رہتے اور جب تک میرا پارا نقطہ ابال سے نقطہ بخار تک پہنچتا، کسی نہ کسی مصروفیت کا بہانہ کر کے فوراً پتلی گلی سے نکل لیتے۔
ایک صاحب تو فون کے بعد میرے گھر پر تشریف لائے۔ عمر میں مجھ سے چند سال بزرگ ہیں لیکن دل کی جوانی کے باعث اپنے سے کم سن دوستوں کے ساتھ بھی خوب محفل سجاتے ہیں۔ میں نے ایک زہرخندانہ مسکراہٹ کے ساتھ انکا استقبال کیا۔ جب نشست شروع ہوئی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ مزاج کیسے ہیں؟ میں نے بھی ان کے تیوری چڑھا کر جواب دیا، صاحب شکر ہے کہ پالنے والا اور حفاظت کرنے والی اللہ کی ذات ہے، ورنہ ہم لوگوں سے کیا امید رکھیں؟
صاحب نے میرے تیوروں پر غور کرتے ہوئے پینترا بدلا، اور مزاج کی تندی پر مدبرانہ تبسم فرما کر فوراً بولے، بے شک، بے شک، اللہ سے بڑا کوئی حافظ نہیں، لہٰذا سب کا اللہ ہی حافظ ہے، ہم بھی کسی کو کیا تسلّی دے سکتے ہیں، کہ خود بھی اسی کے آسرے پر چلتے ہیں۔
یہ سن کر تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی، ڈاکٹر صاحب کی صورت اور آواز کانوں میں گونج گئی، انکی عینک کا فریم مجھے گویا ہوا میں معلّق ہوتا دکھائی دیا، میں نے اسی وقت دوست پر وار کیا
تو تنخواہ کس بات کی لیتے ہو تم لوگ؟ گھٹیا لوگوں، بوٹ بردار، تمھارے لیئے کیا کچھ نہیں کیا بیچارے ڈاکٹر نے؟ تمھارے حق میں نعرے لگاتے لگاتے بیچارے ڈاکٹر کا منہ کا جغرافیا تناسب سے باہر ہو گیا، لیکن تم لوگ، تم لوگوں نے اسے بھی ۔۔۔۔۔ تم جاوٗ جا کر اپنے ڈی ایچ اے کے پلاٹوں کی حفاظت کرو، اپنے کرپٹ حکمرانوں کو گارڈ آف آنر پیش کرو، تمھیں کیا پڑے کہ ایک مخلص اور جانفشاں شخص سچ بولنے کی بیماری کی وجہ سے شر پسند عناصر کا شکار ہو جائے۔ بعد میں اپنے جنرل کو بھیج دینا اس کے گھر فاتحہ خوانی کے لیئے۔
اب یہ سننا تھا کہ خلاف توقع دوست صاحب نے ایک فلک شگاف قہقہ لگایا، بلکہ لگاتے ہی چلے گئے، عین ممکن تھا کہ اشکبار ہو جاتے، بہت مشکل سے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ سکے
بھائی میں آپکے جذبات سمجھ سکتا ہوں، سچ بولنے اور تولنے میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر میں خود شیزوفرینیا کا مریض ہو جاوٗں تو یہ سچ ہی سمجھیں کہ مجھے رسی بھی سانپ دکھائی دے گی، میں غلط بیانی تو نہیں کرونگا، لیکن اس وقت مجھے کوئی سپاہی نہیں، ایک ڈاکٹر ہی بچا سکتا ہے۔ مجھے اس سچ کو بولنے سے زیادہ اسکو تولنے کی بھی ضرورت ہو گی، کہ باقی سب کو وہ رسی سانپ کیوں نہیں نظر آتی؟
ارے ایسے ہی بے پر کی نہ اڑایا کرو، تمھارے خیال سے اتنا بڑا تجزیہ کار جھوٹ بولے گا؟، میں نے بھی مورچہ سنبھال لیا اور ابھی جوابی فائر کے لیئے اپنے منہ کا چیمبر چڑھانے ہی والا تھا کہ صاحب پہلے ہی بول پڑے،
ارے سہیل، تم تو جانتے ہو کہ الفریڈ ہچکاک بھی خود شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا تھا، اور کیسے پوری دنیا میں اسکی بنائی ہورر فلمیں مشہور تھیں؟
وہ بلا تعطل ہی روانی میں کہنے لگے
اسی طرح ڈاکٹر صاحب بھی ہیں۔ جب تک انھیں ڈنڈے اور جوتے کا خوف ہوتا ہے، تب تک یہ فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، اور جب انھیں کسی راہ گزرتے پٹواری کی دھمکی سنائی دیتی ہے تو یہ اسی فوج پر ہی الٹے ہو جاتے ہیں، انکو بھی رسی کے سانپ دکھتے ہیں، اور مجھے بچاوٗ مجھے بچاوٗ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ حالانکہ انکے حالات میں انکو انکی ڈاکٹر برادری والے ہی بہتر طور بچا سکتے ہیں، فوجی نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سچ نہیں بول رہے کہ انھیں کسی نے میسج کیا ہوگا یا فیس بک پر انکو دھمکایا ہوگا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذہنی حالت کی بنا پر سچ کو تول نہیں رہے کہ ان سے زیادہ تو پٹواریوں کی شان میں قصیدے تو اور پروگراموں میں بھی پڑھے جاتے ہیں، پھر انکو پٹواریوں کے میسج اور سوشل میڈیا پر لعن طعن میں دھمکی کیوں نہیں نظر آتی؟
تو آپکے خیال سے ڈاکٹر صاحب خدانخواستہ پاگل ہو گئے ہیں؟ اور یہ تمام لوگ جو انھیں سنتے ہیں وہ سب پاگل ہیں کیا؟ میں نے بھی ایک تمسخرانہ تبسم میں لتھڑا تیر اپنے دوست کی جانب پھینکا، لیکن جواباًً انھوں نے مجھ سے بھی زیادہ تمسخرانہ انداز میں جواب دیا یار ابھیالفریڈ ہچکاک کا حوالہ دیا ہے تجھے، کیا اسکی فلمیں دیکھنے والے سب دماغی مریض ہوتے ہیں؟
سچی بات یہ کہ دوست کی اس مثال پر میں تھوڑا سٹپٹا سا گیا، لیکن ہم بھی مورچے چھوڑ کر بھاگنے کے عادی نہیں۔
خرافات ہیں سب، اپنی نا اہلی پر مٹی پاوٗ پالیسی ہے تم لوگوں کی، ڈاکٹر صاحب نے جب سے یہ بتایا ہے کہ پنامہ کا فیصلہ پہلے ہی لیک ہو چکا تھا، تب سے تم لوگوں نے بھی ان کا ہاتھ چھوڑ دیا ہے، بڑے مطلب پرست ہو تم لوگ
اس بار تو دوست صاحب پر ہنسی کا وہ دورہ پڑا کہ قریباًً دوہرے ہی ہو گئے
یار پنامہ کا فیصلہ اگر حکمرانوں کو پتہ تھا، تو وہ پہلے قوم سے خطاب کا اعلان کر کے کم از کم خطاب تو کرتے، بلکہ ان کے پاس تو لکھی ہوئی تقریر بھی پہلے ہی موجود ہونی چاہئے تھی، اور جیسا کہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ چیزیں تبدیل ہوئی ہیں، تو کیا یہ خود اس بات کا اعتراف نہیں کہ پہلے تو فیصلہ انکو لیک کیا گیا تھا، بعد میں کہیں اور کیا گیا ہوا ہو تو ہو تفتیش تو عدالت کو پولے ان سے کرنی چاہیے
میں خاموشی سے اٹھا اور دوست سے سے پوچھا اچھا چائے پئیے گا یا کھانا بنواوٗں؟
شام کو ایک عدد میسج فیس بک پر چھوڑ دیا ڈاکٹر صاحب کے لیئے، یہ ایک ماہر دماغی امراض ڈاکٹر کا پتہ بھجوا رہا ہوں، اپنا، اپنے رشتے داروں، دوستوں اور ارد گرد کے تمام لوگوں کا خیال رکھیئے گا، اللہ حافظ !
اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، پچھلے دنوں سے ڈاکٹر شاہد مسعود کے جذبات سے لبریز پروگرام کو دیکھ کر پہلے تو بہت غصّہ آیا، اپنے تمام ایسے دوستوں کو جو ملک کے سیکیورٹی اداروں میں کام کرتے ہیں، باری باری فون کر کے میں نے حسب توفیق جتنی گالیاں نکال سکتا تھا، نکال دیں، وہ سمجھ گئے کہ مجھ پر ڈاکٹر صاحب پر گزرنے والی قیامت کا اثر ہو چکا ہے۔لہٰذا جلتی پر تیل ڈالنے کے لیئے صرف خاموشی سے سنتے رہتے اور جب تک میرا پارا نقطہ ابال سے نقطہ بخار تک پہنچتا، کسی نہ کسی مصروفیت کا بہانہ کر کے فوراً پتلی گلی سے نکل لیتے۔
ایک صاحب تو فون کے بعد میرے گھر پر تشریف لائے۔ عمر میں مجھ سے چند سال بزرگ ہیں لیکن دل کی جوانی کے باعث اپنے سے کم سن دوستوں کے ساتھ بھی خوب محفل سجاتے ہیں۔ میں نے ایک زہرخندانہ مسکراہٹ کے ساتھ انکا استقبال کیا۔ جب نشست شروع ہوئی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ مزاج کیسے ہیں؟ میں نے بھی ان کے تیوری چڑھا کر جواب دیا، صاحب شکر ہے کہ پالنے والا اور حفاظت کرنے والی اللہ کی ذات ہے، ورنہ ہم لوگوں سے کیا امید رکھیں؟
صاحب نے میرے تیوروں پر غور کرتے ہوئے پینترا بدلا، اور مزاج کی تندی پر مدبرانہ تبسم فرما کر فوراً بولے، بے شک، بے شک، اللہ سے بڑا کوئی حافظ نہیں، لہٰذا سب کا اللہ ہی حافظ ہے، ہم بھی کسی کو کیا تسلّی دے سکتے ہیں، کہ خود بھی اسی کے آسرے پر چلتے ہیں۔
یہ سن کر تو میرے تن بدن میں آگ لگ گئی، ڈاکٹر صاحب کی صورت اور آواز کانوں میں گونج گئی، انکی عینک کا فریم مجھے گویا ہوا میں معلّق ہوتا دکھائی دیا، میں نے اسی وقت دوست پر وار کیا
تو تنخواہ کس بات کی لیتے ہو تم لوگ؟ گھٹیا لوگوں، بوٹ بردار، تمھارے لیئے کیا کچھ نہیں کیا بیچارے ڈاکٹر نے؟ تمھارے حق میں نعرے لگاتے لگاتے بیچارے ڈاکٹر کا منہ کا جغرافیا تناسب سے باہر ہو گیا، لیکن تم لوگ، تم لوگوں نے اسے بھی ۔۔۔۔۔ تم جاوٗ جا کر اپنے ڈی ایچ اے کے پلاٹوں کی حفاظت کرو، اپنے کرپٹ حکمرانوں کو گارڈ آف آنر پیش کرو، تمھیں کیا پڑے کہ ایک مخلص اور جانفشاں شخص سچ بولنے کی بیماری کی وجہ سے شر پسند عناصر کا شکار ہو جائے۔ بعد میں اپنے جنرل کو بھیج دینا اس کے گھر فاتحہ خوانی کے لیئے۔
اب یہ سننا تھا کہ خلاف توقع دوست صاحب نے ایک فلک شگاف قہقہ لگایا، بلکہ لگاتے ہی چلے گئے، عین ممکن تھا کہ اشکبار ہو جاتے، بہت مشکل سے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے صرف اتنا ہی کہہ سکے
بھائی میں آپکے جذبات سمجھ سکتا ہوں، سچ بولنے اور تولنے میں بھی بہت فرق ہوتا ہے۔ اگر میں خود شیزوفرینیا کا مریض ہو جاوٗں تو یہ سچ ہی سمجھیں کہ مجھے رسی بھی سانپ دکھائی دے گی، میں غلط بیانی تو نہیں کرونگا، لیکن اس وقت مجھے کوئی سپاہی نہیں، ایک ڈاکٹر ہی بچا سکتا ہے۔ مجھے اس سچ کو بولنے سے زیادہ اسکو تولنے کی بھی ضرورت ہو گی، کہ باقی سب کو وہ رسی سانپ کیوں نہیں نظر آتی؟
ارے ایسے ہی بے پر کی نہ اڑایا کرو، تمھارے خیال سے اتنا بڑا تجزیہ کار جھوٹ بولے گا؟، میں نے بھی مورچہ سنبھال لیا اور ابھی جوابی فائر کے لیئے اپنے منہ کا چیمبر چڑھانے ہی والا تھا کہ صاحب پہلے ہی بول پڑے،
ارے سہیل، تم تو جانتے ہو کہ الفریڈ ہچکاک بھی خود شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا تھا، اور کیسے پوری دنیا میں اسکی بنائی ہورر فلمیں مشہور تھیں؟
وہ بلا تعطل ہی روانی میں کہنے لگے
اسی طرح ڈاکٹر صاحب بھی ہیں۔ جب تک انھیں ڈنڈے اور جوتے کا خوف ہوتا ہے، تب تک یہ فوج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں، اور جب انھیں کسی راہ گزرتے پٹواری کی دھمکی سنائی دیتی ہے تو یہ اسی فوج پر ہی الٹے ہو جاتے ہیں، انکو بھی رسی کے سانپ دکھتے ہیں، اور مجھے بچاوٗ مجھے بچاوٗ کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ حالانکہ انکے حالات میں انکو انکی ڈاکٹر برادری والے ہی بہتر طور بچا سکتے ہیں، فوجی نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سچ نہیں بول رہے کہ انھیں کسی نے میسج کیا ہوگا یا فیس بک پر انکو دھمکایا ہوگا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی ذہنی حالت کی بنا پر سچ کو تول نہیں رہے کہ ان سے زیادہ تو پٹواریوں کی شان میں قصیدے تو اور پروگراموں میں بھی پڑھے جاتے ہیں، پھر انکو پٹواریوں کے میسج اور سوشل میڈیا پر لعن طعن میں دھمکی کیوں نہیں نظر آتی؟
تو آپکے خیال سے ڈاکٹر صاحب خدانخواستہ پاگل ہو گئے ہیں؟ اور یہ تمام لوگ جو انھیں سنتے ہیں وہ سب پاگل ہیں کیا؟ میں نے بھی ایک تمسخرانہ تبسم میں لتھڑا تیر اپنے دوست کی جانب پھینکا، لیکن جواباًً انھوں نے مجھ سے بھی زیادہ تمسخرانہ انداز میں جواب دیا یار ابھیالفریڈ ہچکاک کا حوالہ دیا ہے تجھے، کیا اسکی فلمیں دیکھنے والے سب دماغی مریض ہوتے ہیں؟
سچی بات یہ کہ دوست کی اس مثال پر میں تھوڑا سٹپٹا سا گیا، لیکن ہم بھی مورچے چھوڑ کر بھاگنے کے عادی نہیں۔
خرافات ہیں سب، اپنی نا اہلی پر مٹی پاوٗ پالیسی ہے تم لوگوں کی، ڈاکٹر صاحب نے جب سے یہ بتایا ہے کہ پنامہ کا فیصلہ پہلے ہی لیک ہو چکا تھا، تب سے تم لوگوں نے بھی ان کا ہاتھ چھوڑ دیا ہے، بڑے مطلب پرست ہو تم لوگ
اس بار تو دوست صاحب پر ہنسی کا وہ دورہ پڑا کہ قریباًً دوہرے ہی ہو گئے
یار پنامہ کا فیصلہ اگر حکمرانوں کو پتہ تھا، تو وہ پہلے قوم سے خطاب کا اعلان کر کے کم از کم خطاب تو کرتے، بلکہ ان کے پاس تو لکھی ہوئی تقریر بھی پہلے ہی موجود ہونی چاہئے تھی، اور جیسا کہ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ چیزیں تبدیل ہوئی ہیں، تو کیا یہ خود اس بات کا اعتراف نہیں کہ پہلے تو فیصلہ انکو لیک کیا گیا تھا، بعد میں کہیں اور کیا گیا ہوا ہو تو ہو تفتیش تو عدالت کو پولے ان سے کرنی چاہیے
میں خاموشی سے اٹھا اور دوست سے سے پوچھا اچھا چائے پئیے گا یا کھانا بنواوٗں؟
شام کو ایک عدد میسج فیس بک پر چھوڑ دیا ڈاکٹر صاحب کے لیئے، یہ ایک ماہر دماغی امراض ڈاکٹر کا پتہ بھجوا رہا ہوں، اپنا، اپنے رشتے داروں، دوستوں اور ارد گرد کے تمام لوگوں کا خیال رکھیئے گا، اللہ حافظ !
Last edited: