
کراچی کی ایک عدالت نے ایک سنگین جرم میں ملوث شخص کو اپنی ہی بیٹی کے ساتھ بار بار زیادتی کرنے کے جرم میں 25 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ نہ صرف عدالتی بیانات بلکہ ڈی این اے کی ناقابلِ تردید شہادتوں کی بنیاد پر سنایا گیا، جس میں یہ ثابت ہوا کہ مجرم نہ صرف متاثرہ خاتون کا باپ ہے بلکہ اس کے پیدا ہونے والے بچے کا حیاتیاتی والد بھی ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ کہانی مئی 2021 میں اس وقت منظرعام پر آئی جب کراچی کے رہائشی جنید (فرضی نام) کو فیس بک پر ایک اجنبی خاتون، فوزیہ (فرضی نام)، کا پیغام موصول ہوا۔ اس پیغام میں فوزیہ نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا ذکر کیا، جس پر ابتدا میں جنید کو لگا کہ یہ کوئی فریب ہو سکتا ہے۔ لیکن جب وہ اس خاتون سے ملے اور اس کی بات سنی تو انہیں حقیقت کا اندازہ ہوا کہ یہ ایک المناک اور لرزہ خیز سچائی ہے۔
فوزیہ کے مطابق، مئی 2020 میں جب ان کی والدہ بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل تھیں، ان کے والد نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دے کر متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئیں۔ جب جنوری 2021 میں ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، تو والدہ نے ڈاکٹروں کو ایک اور شخص کا نام دے دیا تاکہ حقیقت چھپی رہے۔ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے، فوزیہ پر مزید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خاموش رہے اور کسی کو حقیقت نہ بتائے۔
جنید نے جب اس تمام صورتحال کو سمجھا تو انہیں احساس ہوا کہ فوزیہ بے قصور ہے اور اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے فوزیہ سے نکاح کر کے اس کے حق میں آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن نکاح کے بعد بھی انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوزیہ کے والد نے نہ صرف ان پر دباؤ ڈالا بلکہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ تاہم، جنید اور فوزیہ نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا، جس کی تفتیش کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت ہو گیا کہ فوزیہ کے بچے کا اصل باپ اس کا اپنا والد ہی تھا۔
کراچی کی عدالت نے 20 مارچ 2025 کو اپنے فیصلے میں کہا، "اس کیس میں ملزم متاثرہ خاتون کا اصل باپ ہے اور اس نے کئی بار جرم دہرایا۔ لہٰذا یہ کسی کم سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔" عدالت نے اسے ریپ کے جرم میں 25 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، جبکہ قتل کی دھمکی دینے پر سات سال کی مزید قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی دی گئی۔
اس مقدمے کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ فوزیہ کی والدہ کو اپنی بیٹی کی حالت کا علم تھا، مگر انہوں نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کیا۔ جب بچے کی پیدائش ہوئی اور ڈاکٹروں نے والد کا نام پوچھا تو انہوں نے ایک اور شخص کا نام دے دیا تاکہ حقیقت نہ کھل سکے۔ لیکن جب جنید نے فوزیہ کا ساتھ دیا، تو وہ مجبور ہو کر پولیس کے پاس گئیں اور اپنے والد کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔
فوزیہ کے شوہر جنید نے کہا، "میری اہلیہ نے بہت ہمت دکھائی۔ اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کیس واپس لے لے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ جب وہ ثابت قدم رہی، تو میں نے بھی اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔"
کیس کی پیروی کرنے والی سرکاری وکیل شیخ حنا ناز شمس نے کہا کہ "یہ ایک مشکل کیس تھا، کیونکہ ابتدا میں کوئی وکیل بھی مجرم کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ عدالت نے اسے دفاع کے لیے وکیل فراہم کیا، لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو اس کے وکیل نے بھی وکالت نامہ واپس لے لیا۔"
اس مقدمے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا بچہ تھا، جو فوزیہ کے والد کا حیاتیاتی بیٹا تھا۔ جنید اور فوزیہ نے اس کے بہتر مستقبل کے لیے فیصلہ کیا کہ اسے کسی فلاحی ادارے کے حوالے کر دیا جائے۔ فوزیہ کے شوہر نے کہا، "ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ بچہ رشتہ داروں کی نظروں میں بڑا ہو اور اسے ہر وقت اس کے اصل کی یاد دلائی جائے۔ اس لیے ہم نے یہ مشکل فیصلہ کیا۔"