کراچی بندرگاہیں، اربوں کی اراضی پر قبضہ،سندھ حکومت سیاستدان و دیگر ملوث

57fdbc157034c.jpg

کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی زمینوں پر تجاوزات کا انکشاف

صحافی انصار عباسی کے مطابق کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی تقریباً ایک تہائی اراضی، جس کی مالیت اربوں روپے ہے، تجاوزات کی زد میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 1448 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے، جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 30 ایکڑ زمین پر بھی غیر قانونی تعمیرات موجود ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان غیر قانونی قبضوں میں بعض حکمران سیاسی جماعتوں سے وابستہ شخصیات کی پشت پناہی کا بھی عنصر شامل ہے۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت کی تقریباً 350 ایکڑ اراضی پر سندھ حکومت قابض ہے۔

وزارتِ دفاع کے مطابق، وزیرِاعظم شہباز شریف کو میری ٹائم سیکٹر کی بحالی کے منصوبے سے متعلق جو معلومات فراہم کی گئی ہیں، ان میں واضح کیا گیا ہے کہ ساحلی پٹی سے متصل قیمتی زمینوں پر تجاوزات اور بدحالی کے باعث کوئی مؤثر معاشی سرگرمی نہیں ہو رہی۔

وزیرِاعظم کے منظور کردہ ری ویمپنگ پلان کے تحت سندھ رینجرز اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وفاقی ملکیتی زمین کو واگزار کرا کے اسے بندرگاہی کاروبار، ہائی رائز آپریشنز، گوداموں کی تعمیر اور تجارتی منصوبوں کے لیے استعمال میں لایا جائے۔

زمین کی ملکیت اور تجاوزات کے مسائل

کراچی پورٹ ٹرسٹ کی مجموعی اراضی 8644 ایکڑ پر مشتمل ہے، جس میں سے 1098 ایکڑ پر مختلف نوعیت کی تجاوزات ہیں۔ ان تجاوزات کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
  1. عارضی تجاوزات – چھپڑا ہوٹل، دکانیں، کیبن، غیر قانونی پارکنگ اور مویشی فارمز۔​
  2. مستقل تجاوزات – مکانات، دکانیں، مساجد، مدارس اور گودام۔​
  3. غیر قانونی تعمیرات – ایسی زمین جو لیز یا الاٹمنٹ پر دی گئی، لیکن اس پر مقررہ حد سے زیادہ توسیع کر لی گئی۔​

کلفٹن میں کے پی ٹی کی 350 ایکڑ زمین پر سندھ حکومت کے قبضے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، کئی کچی آبادیاں جیسے سلطان آباد، مچھر کالونی، صالح آباد، ہجرت کالونی، یونس آباد اور دیگر علاقوں میں غیر قانونی طور پر آباد کی جا چکی ہیں۔

ذرائع کے مطابق، 1993 میں اُس وقت کے وزیرِاعظم کے حکم پر بابا جزیرہ اور کاکا پیر کی زمین مخصوص رہائشی مقاصد کے لیے مختص کی گئی تھی، مگر اس کے بعد سندھ حکومت نے غیر قانونی طریقے سے سرکاری سندیں جاری کرنا شروع کر دیں، جس سے مسائل مزید پیچیدہ ہو گئے۔

قانونی پیچیدگیاں اور عملدرآمد میں رکاوٹیں

کے پی ٹی نے زمین واگزار کرانے کے لیے 2011 میں سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے، تاہم دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سندھ پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے مکمل تعاون نہیں کر رہے، جس کی وجہ سے تجاوزات کے خلاف کارروائی مؤثر ثابت نہیں ہو رہی۔

2002 میں پورٹ سیکیورٹی فورس آرڈیننس کے تحت بندرگاہی علاقوں میں قانونی نگرانی اور کارروائی کے لیے دو مجسٹریٹس کی تعیناتی کی شق شامل کی گئی تھی، لیکن حیران کن طور پر تاحال کوئی مجسٹریٹ مقرر نہیں کیا گیا۔

پورٹ قاسم اتھارٹی کی زمین پر قبضہ
پورٹ قاسم اتھارٹی، جس کی مجموعی اراضی 13,770 ایکڑ پر مشتمل ہے، اس کی 30 ایکڑ زمین پر بھی تجاوزات قائم ہیں۔ گلشن بینظیر ٹاؤن شپ اسکیم اور نارتھ ویسٹ انڈسٹریل زون کے قریب 22 ایکڑ زمین پر بھی غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

سندھ حکومت کا مؤقف
وزیرِاعلیٰ سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال کے پی ٹی اور سندھ حکومت کے درمیان زمین کے تنازع سے مکمل آگاہ نہیں ہیں، لہٰذا فوری طور پر کسی وضاحتی بیان کا اجرا ممکن نہیں۔


 

Back
Top