وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان جیل میں نوکیا 3300 استعمال کرتے ہیں جو دنیا کا سب سے محفوظ ترین موبائل سمجھا جاتا ہے
اب سوال یہ ہے کہ سیمبین فونز ٹریس کیے جا سکتے ہیں؟
اردو نیوز کے مطابق سیمبین فونز کو ٹریس کرنے میں مشکل ضرور پیش آسکتی ہے مگر یہ ناممکن ہرگز نہیں،سیمبین فونز بنیادی فیچر فونز ہوتے ہیں جن میں جدید سمارٹ فونز کی طرح کنیکٹیویٹی یا ٹریکنگ کی صلاحیتیں نہیں ہوتیں, یہ مکمل طور پر ناقابل شناخت نہیں ہیں۔
میٹا اے آئی کے مطابق سیمبین فونز کے مقام کا اندازہ لگانے کے لیے سیل فون ٹاور کا ڈیٹا استعمال کیا جا سکتا ہے, فون کے آئی ایم ای آئی نمبر کو ڈیوائس کی شناخت اور ٹریک کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فون سے کی گئی کالز اور ٹیکسٹ کے ریکارڈز بھی نیٹ ورک کمپنی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں,ویب سائٹ جی ایس ایم ایرینا کے مطابق یہ فون سال 2003 میں لانچ کیا گیا تھا، اس میں سیمبین ایس 30 کا آپریٹنگ سسٹم چلتا تھا۔ اس فون کو میوزک پلیئنگ فون کے طور پر مارکیٹ کیا گیا تھا۔
جہاں نوکیا کے پرانے فونز ٹریس کیے جانے کا ذکر ہو ہی رہا ہے وہیں وائس میڈیا میں 2015 کی شائع کردہ رپورٹ کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ کے ڈرگ مافیا نوکیا کا 8210 فون استعمال کرتے تھے۔
ٹیلی کام بزنس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ نوکیا کے 2000 کے بعد کے پرانے فونز جی ایس ایم ہوتے ہیں اور یہ ٹاور استعمال کرتے ہیں، انکی کال ریکارڈ کا ڈیٹا موبائل فون کمپنی کے پاس محفوظ ہوتا ہے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جنرل فیض حمید کا معاملہ زیادہ عرصہ معلق نہیں رہے گا، چند دنوں یا ہفتوں میں معاملات حتمی شکل اختیار کرلیں گے, انہوں نے کہا میں خود بھی جیل میں رہا ہوں وہاں انسان اکیلا ہوتا ہے، مگر عمران خان جیل میں اتنے اکیلے نہیں ہیں، سارا دن میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں، پرانا موبائل فون نوکیا 3300 بھی استعمال کرتے ہیں جو دنیا کا محفوظ ترین فون سمجھا جاتا ہے، ہمیں تو جیل میں گفتگو کیلئے کوئی نہیں ملتا تھا مشقتی سے ہی بات کرتے تھے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان جیل میں نوکیا 3300 استعمال کرتے ہیں جو دنیا کا سب سے محفوظ ترین موبائل سمجھا جاتا ہے
اب سوال یہ ہے کہ سیمبین فونز ٹریس کیے جا سکتے ہیں؟
اردو نیوز کے مطابق سیمبین فونز کو ٹریس کرنے میں مشکل ضرور پیش آسکتی ہے مگر یہ ناممکن ہرگز نہیں،سیمبین فونز بنیادی فیچر فونز ہوتے ہیں جن میں جدید سمارٹ فونز کی طرح کنیکٹیویٹی یا ٹریکنگ کی صلاحیتیں نہیں ہوتیں, یہ مکمل طور پر ناقابل شناخت نہیں ہیں۔
میٹا اے آئی کے مطابق سیمبین فونز کے مقام کا اندازہ لگانے کے لیے سیل فون ٹاور کا ڈیٹا استعمال کیا جا سکتا ہے, فون کے آئی ایم ای آئی نمبر کو ڈیوائس کی شناخت اور ٹریک کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
فون سے کی گئی کالز اور ٹیکسٹ کے ریکارڈز بھی نیٹ ورک کمپنی سے حاصل کیے جا سکتے ہیں,ویب سائٹ جی ایس ایم ایرینا کے مطابق یہ فون سال 2003 میں لانچ کیا گیا تھا، اس میں سیمبین ایس 30 کا آپریٹنگ سسٹم چلتا تھا۔ اس فون کو میوزک پلیئنگ فون کے طور پر مارکیٹ کیا گیا تھا۔
جہاں نوکیا کے پرانے فونز ٹریس کیے جانے کا ذکر ہو ہی رہا ہے وہیں وائس میڈیا میں 2015 کی شائع کردہ رپورٹ کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ برطانیہ کے ڈرگ مافیا نوکیا کا 8210 فون استعمال کرتے تھے۔
ٹیلی کام بزنس سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ نوکیا کے 2000 کے بعد کے پرانے فونز جی ایس ایم ہوتے ہیں اور یہ ٹاور استعمال کرتے ہیں، انکی کال ریکارڈ کا ڈیٹا موبائل فون کمپنی کے پاس محفوظ ہوتا ہے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جنرل فیض حمید کا معاملہ زیادہ عرصہ معلق نہیں رہے گا، چند دنوں یا ہفتوں میں معاملات حتمی شکل اختیار کرلیں گے, انہوں نے کہا میں خود بھی جیل میں رہا ہوں وہاں انسان اکیلا ہوتا ہے، مگر عمران خان جیل میں اتنے اکیلے نہیں ہیں، سارا دن میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں، پرانا موبائل فون نوکیا 3300 بھی استعمال کرتے ہیں جو دنیا کا محفوظ ترین فون سمجھا جاتا ہے، ہمیں تو جیل میں گفتگو کیلئے کوئی نہیں ملتا تھا مشقتی سے ہی بات کرتے تھے۔
This stupid khawaja sira didn’t talk to anyone in jail because patwaris only talk to people outside the jail, where they can atleast get Khota Biryani for their services