کینیا میں فنانس بل پر جین زی حکومت کیسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی؟

iah1i2h1131.jpg

کینیا کی ’جین زی‘ بہادر,حکومت کو نئے ٹیکس عائد کرنے کے بجائے سرکاری اخراجات کم کرنے پر کیسے مجبور کردیا

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق کینیا کی جین زی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا, جب کینیا کی پارلیمان نے ملگ گیر احتجاجی مظاہروں کے باوجود نئے ٹیکس نافذ کرنے کی منظوری دی تو احتجاج پرتشدد ہو گیا جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے۔

اس دوران مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ کیا جہاں توڑ پھوڑ بھی کی گئی اور آگ بھی لگائی گئی, چند مظاہرین نے پارلیمان کے اختیار کی علامت سمجھا جانے والا عصا بھی چرا لیا۔

اس احتجاج کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا تھی، سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی جانب سے شروع کی جانے والی تحریک نے بین الاقوامی سطح پر سب سے زیادہ مانے جانے والی افریقی لیڈروں میں سے ایک کو اپنے ہی بجٹ کو ترک کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یہ احتجاج نوجوانوں کی جانب سے سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے منظم کیے گئے اور کہا جارہا ہے کہ اس احجاج اور حکومتی فیصلے نے نوجوانوں کی طاقت اور جین زی کے اثر ورسوخ کو ظاہر کیا۔

صدر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے اور کینیا کو قرضوں کے جال سے نکالنے کی غرض سے سخت لیکن انتہائی ضروری اقدامات لیے تھے,کینیا ٹیکس محصولات کا 61 فیصد قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرتا ہے۔

صدر روٹو کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا فنانس بل ’ملک کو قرض کی تکلیف سے نجات دلانے اور اس کی خودمختاری‘ کے لیے ضروری تھا۔تاہم حالیہ دنوں کی ہنگامہ آرائی نے صدر روٹو کو اپنا راستہ یکسر بدلنے پر مجبور کر دیا ہے۔

اب صدر روٹو عوامی کفایت شعاری کا ایک نیا پروگرام متعارف کروا کر معاشی استحکام حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔کفایت شعاری کے اس پروگرام کے تحت صدر روٹو کے اپنے دفتر کے اخراجات میں بھی کٹوتی کی جائے گی۔

یہ اس بات کی جانب واضح اشارہ ہے کہ وہ مطاہرین کی جانب سے حکومت پر لگائے جانے والے بدعنوانی اور شاہ خرچیوں کے الزامات کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں,کینیا کے صدر نے نوجوانوں سے بات چیت کرنے اور ان کے گلے شکووں کو سننے کا وعدہ کیا ہے۔خطاب کے دوران صدر روٹو نے اپنے ممبرانِ پارلیمنٹ سے فنانس بل کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ان میں کئی شاید اب یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ صدر روٹو کے اس یو ٹرن نے ان کی ساکھ پر سوالیہ نشان چھوڑ دیے ہیں۔