Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
عمران خان کا ہر پاکستانی کو حمودالرحمان کمیشن رپورٹ پڑھنے کا مشورہ۔۔ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر حمودالرحمان کمیشن کے اہم نکات پر ویڈیو شئیر کردی
"ہر پاکستانی کو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ اصل غدار کون تھا، جنرل یحییٰ خان یا شیخ مجیب الرحمان۔" پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان
https://twitter.com/x/status/1794790306912907381
حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ایک ایسی دستاویز ہے جو پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔ سقوط ڈھاکہ یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنائے جانے والے عدالتی کمیشن کی یہ رپورٹ سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سے زیر بحث ہے جس کی وجہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے سوشل میڈیا اکاوئنٹ سے پوسٹ ہونے والا ایک پیغام ہے جس میں کہا گیا کہ ’ہر پاکستانی کو یہ رپورٹ پڑھنی چاہیے۔‘
بنگلہ دیش کے قیام اور 1971 کی جنگ سے جڑے حقائق ماضی میں بھی کئی بار زیر بحث آتے رہے ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2022 کے دوران راولپنڈی میں ’یوم شہدا‘ کی تقریب سے خطاب میں جب کہا کہ وہ سنہ 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان سے متعلق چند حقائق کو درست کرنا چاہتے ہیں اور دعویٰ کیا کہ ’سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی‘ تو اس وقت بھی اس رپورٹ کا چرچہ ایک بار پھر سے ہوا۔
بی بی سی اُردو نے 19 دسمبر 2011 کو صحافی وسعت اللہ خان کی ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں حمود الرحمان کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔ وہ ذمہ داران کون تھے اور کمیشن نے کیا سفارشات کی تھیں، اس حوالے سے اس رپورٹ کو آج دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
یحییٰ خان کی معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ یحیٰی سمیت کئی سینیئر جنرلز کو برطرف کیا، شیخ مجیب کو خصوصی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت منسوخ کی اور قوم سے نشریاتی خطاب میں وعدہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔
قوم سے خطاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’میں نے سخت ایکشن لیا ہے اور چند فربہ جنرلز کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے۔ وہ فوج کے وڈیرے تھے اور ہم وڈیروں کے خلاف ہیں۔‘
26 دسمبر کو حکومت نے چیف جسٹس حمود الرحمان، جسٹس انوار الحق، جسٹس طفیل علی عبد الرحمان اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس نے 300 سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد پہلی رپورٹ 1972 میں اور دوسری رپورٹ 1974 میں پیش کی۔
"ہر پاکستانی کو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے اور یہ جاننا چاہیے کہ اصل غدار کون تھا، جنرل یحییٰ خان یا شیخ مجیب الرحمان۔" پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان
https://twitter.com/x/status/1794790306912907381
حمود الرحمان کمیشن رپورٹ ایک ایسی دستاویز ہے جو پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔ سقوط ڈھاکہ یا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بنائے جانے والے عدالتی کمیشن کی یہ رپورٹ سوشل میڈیا پر ایک بار پھر سے زیر بحث ہے جس کی وجہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے سوشل میڈیا اکاوئنٹ سے پوسٹ ہونے والا ایک پیغام ہے جس میں کہا گیا کہ ’ہر پاکستانی کو یہ رپورٹ پڑھنی چاہیے۔‘
بنگلہ دیش کے قیام اور 1971 کی جنگ سے جڑے حقائق ماضی میں بھی کئی بار زیر بحث آتے رہے ہیں۔ پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نومبر 2022 کے دوران راولپنڈی میں ’یوم شہدا‘ کی تقریب سے خطاب میں جب کہا کہ وہ سنہ 1971 میں سابقہ مشرقی پاکستان سے متعلق چند حقائق کو درست کرنا چاہتے ہیں اور دعویٰ کیا کہ ’سابقہ مشرقی پاکستان ایک فوجی نہیں بلکہ سیاسی ناکامی تھی‘ تو اس وقت بھی اس رپورٹ کا چرچہ ایک بار پھر سے ہوا۔
بی بی سی اُردو نے 19 دسمبر 2011 کو صحافی وسعت اللہ خان کی ایک رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ میں حمود الرحمان کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔ وہ ذمہ داران کون تھے اور کمیشن نے کیا سفارشات کی تھیں، اس حوالے سے اس رپورٹ کو آج دوبارہ شائع کیا گیا ہے۔
یحییٰ خان کی معزولی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صدر اور سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ یحیٰی سمیت کئی سینیئر جنرلز کو برطرف کیا، شیخ مجیب کو خصوصی فوجی عدالت کی جانب سے دی گئی سزائے موت منسوخ کی اور قوم سے نشریاتی خطاب میں وعدہ کیا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور ہتھیار ڈالنے کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے ایک آزادانہ کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔
قوم سے خطاب میں ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ ’میں نے سخت ایکشن لیا ہے اور چند فربہ جنرلز کو نوکری سے برخاست کر دیا ہے۔ وہ فوج کے وڈیرے تھے اور ہم وڈیروں کے خلاف ہیں۔‘
26 دسمبر کو حکومت نے چیف جسٹس حمود الرحمان، جسٹس انوار الحق، جسٹس طفیل علی عبد الرحمان اور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس نے 300 سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد پہلی رپورٹ 1972 میں اور دوسری رپورٹ 1974 میں پیش کی۔
کُھلی عدالت میں مقدمہ
کمیشن نے درج ذیل افسروں پر کُھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا:
یحییٰ خان
سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع و وزیر خارجہ تھے۔
بھٹو حکومت نے انھیں گھر میں نظر بند رکھا تاہم جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کر دی۔ یحییٰ خان کا 10 اگست 1980 کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔
جنرل عبد الحمید خان
جنرل عبد الحمید خان یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ بھٹو حکومت نے انھیں 20 دسمبر 1971 کو برطرف کر دیا تھا۔ حالتِ گمنامی میں لاہور کینٹ کے ایک گھر میں ان کی وفات ہوئی۔
لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ
وہ صدر کے پرنسپل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پُل سمجھے جاتے تھے۔ 20 دسمبر کو انھیں بھی عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں تادمِ مرگ وہ گوشہ نشین رہے۔
لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انھیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔
لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد انھیں، ایئرفورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان اور نیوی کے سربراہ مظفر حسن کو ایک ساتھ برطرف کر دیا گیا۔
اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے سروس سے برطرفی اور تمام مراعات و تمغے واپس لینے کے بعد انھیں آسٹریا میں سفیر مقرر کر دیا۔
گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ جنرل گل حسن کی یاداشتیں 1993 میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام پنڈی کلب کے دو کمروں میں گزارے اور وہیں 10 اکتوبر 1999 کو ان کی وفات ہوئی۔ انھیں بھی مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
میجر جنرل غلام عمر
وہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔
اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ مگر الطاف گوہر کے ایک مضمون کے مطابق 28 لاکھ روپے دوست سیاسی قوتوں میں تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے۔ اس رقم کو آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل اکبر خان اور راؤ فرمان علی کے توسط سے استعمال ہونا تھا۔
لیکن کیا ہوا کیا نہیں، کسی کے پاس حتمی تفصیل نہیں۔ بھٹو حکومت نے غلام عمر کو بھی 20 دسمبر کو برطرف کیا اور کچھ عرصے نظربند رکھا۔ ضیا الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیئرمین رہے۔
میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا
20 دسمبر کو جب جنرل گل حسن کی سفارش پر ان کی برطرفی ہوئی تو جنرل مٹھا فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مشرقی پاکستان میں 25 مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔
دسمبر 1999 میں ان کا لندن میں انتقال ہوا۔ بعد ازاں لندن سے ان کے دوست نے جنرل مٹھا کی بیوہ اندو مٹھا کو یہ جملے لکھے: ’اپنی شاندار زندگی کے آخری دنوں میں وہ صرف ایک ایسا کمرہ چاہتا تھا جس میں وہ کھا پی سکیں، لکھ پڑھ سکیں اور سو سکیں اور چہل قدمی کے لیے ایسی جگہ بھی ہو جہاں سے وہ سامنے پھیلا سبز میدان اور دور پہاڑ دیکھ سکیں۔‘
جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انھیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔ جنرل مٹھا نے اپنے پیچھے ایک کتاب چھوڑی ’ان لائکلی بگننگس۔اے سولجرز لائف، بمبئی سے جی ایچ کیو تک۔‘
لیفٹینینٹ جنرل ارشاد احمد خان
1971 کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انھوں نے شکر گڑھ کے 500 دیہات بلامزاحمت دشمن کے حوالے کر دیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنام ہو گئے۔
میجر جنرل عابد علی زاہد
ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انھوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں 98 گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو انڈین دستے مرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔ مگر یہ راز میجر جنرل عابد زاہد جنگ بندی کے بعد ہی جی ایچ کیو کے علم میں لانے کی ہمت کر سکے۔
میجر جنرل بی ایم مصطفی
ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔
لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی
جنرل نیازی جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے اس وقت تک وہ فوج کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر مانے جاتے تھے۔ انھیں دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر بے جگری سے لڑنے پر ملٹری کراس اور ٹائیگر کا خطاب ملا تھا۔
جب بیشتر جنرلوں نے ایسٹرن کمان کی پوسٹنگ لینے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کر دیا تو نیازی نے خود کو اس کام کے لیے پیش کر دیا۔
کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں نے جنرل نیازی پر اخلاقی بے راہ روی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے۔
میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ ’یہ میں کیا سُن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہو گئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے۔‘
جنرل نیازی کے خلاف 15 الزامات میں کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی۔ بھٹو حکومت نے جنرل نیازی کو رینکس اور ہلالِ جرات سمیت تمغے اور پنشن ضبط کر کے برطرف کر دیا۔
انھوں نے اپنی کتاب ’دی بٹریل آف ایسٹ پاکستان‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ بھٹو کے خلاف تحریک میں پی این اے کے جلسوں سے بھی خطاب کرتے رہے۔ مرتے دم تک اپنے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے رہے لیکن کسی حکومت نے بوجوہ دھیان نہیں دیا۔
دو فروری 2004 کو وفات پائی اور سادگی سے دفن ہو گئے۔
میجر جنرل محمد جمشید (کمانڈر 36 ڈویژن)
ان کے ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فردِ جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ 35 لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 16 دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد گوشہ نشین ہو گئے۔
میجر جنرل رحیم خان (کمانڈر 39 ڈویژن)
ان کا ڈویژن کومیلا میں متعین تھا۔ پسپائی اختیار کرتے ہوئے زخمی ہو گئے اور 12 یا 13 دسمبر کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے علاقے اراکان میں اتر گئے۔ مگر قسمت مسلسل یاوری کرتی رہی۔ سیکریٹری جنرل وزارتِ دفاع اور چیئرمین پی آئی اے رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس صدر بھی رہے۔
بریگیڈیئر باقر صدیقی (چیف آف سٹاف، ایسٹرن کمانڈ)
وہ ڈھاکہ کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں میں سے ایک اور جنرل نیازی کی ناک کا بال تھے۔ ان پر الزام ہے کہ 10 دسمبر کو جب جی ایچ کیو نے یہ احکامات جاری کیے کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑیں تو باقر صدیقی نے اس پلان پر عمل نہیں کیا۔
ان کے بریگیڈ نے جنرل ناگرہ کے سامنے رسمی طور پر ہتھیار ڈالے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دورانِ قید ان کے تعلقات نگراں انڈین افسروں سے اتنے بہتر ہو گئے کہ کلکتہ میں کیمپ سے کبھی کبھار باہر جا کر شاپنگ بھی کر لیتے تھے۔
بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کر کے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصے پی آئی اے شیور کے بھی سربراہ رہے۔
بریگیڈیئر محمد حیات (کمانڈر 107 بریگیڈ، 39 ڈویژن)
ان کا بریگیڈ جیسور سیکٹر کا ذمہ دار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چھ دسمبر کو ہی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگا۔ بعد ازاں ریٹائر کر دیا گیا۔
بریگیڈیئر محمد اسلم نیازی (کمانڈر 53 بریگیڈ، نو ڈویژن)
ان کا بریگیڈ لکشم کے علاقے میں تعینات تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نو دسمبر کو 124 بیمار اور زخمی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے۔ اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔
www.bbc.com
یحییٰ خان
سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، وزیرِ دفاع و وزیر خارجہ تھے۔
بھٹو حکومت نے انھیں گھر میں نظر بند رکھا تاہم جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کر دی۔ یحییٰ خان کا 10 اگست 1980 کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔
جنرل عبد الحمید خان
جنرل عبد الحمید خان یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ بھٹو حکومت نے انھیں 20 دسمبر 1971 کو برطرف کر دیا تھا۔ حالتِ گمنامی میں لاہور کینٹ کے ایک گھر میں ان کی وفات ہوئی۔
لیفٹیننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ
وہ صدر کے پرنسپل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پُل سمجھے جاتے تھے۔ 20 دسمبر کو انھیں بھی عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں تادمِ مرگ وہ گوشہ نشین رہے۔
لیفٹیننٹ جنرل گل حسن خان
سقوطِ ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انھیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کر دیا۔
لگ بھگ ڈھائی ماہ بعد انھیں، ایئرفورس کے سربراہ ایئر مارشل رحیم خان اور نیوی کے سربراہ مظفر حسن کو ایک ساتھ برطرف کر دیا گیا۔
اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے سروس سے برطرفی اور تمام مراعات و تمغے واپس لینے کے بعد انھیں آسٹریا میں سفیر مقرر کر دیا۔
گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ جنرل گل حسن کی یاداشتیں 1993 میں شائع ہوئیں۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام پنڈی کلب کے دو کمروں میں گزارے اور وہیں 10 اکتوبر 1999 کو ان کی وفات ہوئی۔ انھیں بھی مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
میجر جنرل غلام عمر
وہ نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔
اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ مگر الطاف گوہر کے ایک مضمون کے مطابق 28 لاکھ روپے دوست سیاسی قوتوں میں تقسیم کرنے کے لیے دیے گئے۔ اس رقم کو آئی ایس آئی کے سربراہ میجر جنرل اکبر خان اور راؤ فرمان علی کے توسط سے استعمال ہونا تھا۔
لیکن کیا ہوا کیا نہیں، کسی کے پاس حتمی تفصیل نہیں۔ بھٹو حکومت نے غلام عمر کو بھی 20 دسمبر کو برطرف کیا اور کچھ عرصے نظربند رکھا۔ ضیا الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیئرمین رہے۔
میجر جنرل ابوبکر عثمان مٹھا
20 دسمبر کو جب جنرل گل حسن کی سفارش پر ان کی برطرفی ہوئی تو جنرل مٹھا فوج کے کوارٹر ماسٹر جنرل تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مشرقی پاکستان میں 25 مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔
دسمبر 1999 میں ان کا لندن میں انتقال ہوا۔ بعد ازاں لندن سے ان کے دوست نے جنرل مٹھا کی بیوہ اندو مٹھا کو یہ جملے لکھے: ’اپنی شاندار زندگی کے آخری دنوں میں وہ صرف ایک ایسا کمرہ چاہتا تھا جس میں وہ کھا پی سکیں، لکھ پڑھ سکیں اور سو سکیں اور چہل قدمی کے لیے ایسی جگہ بھی ہو جہاں سے وہ سامنے پھیلا سبز میدان اور دور پہاڑ دیکھ سکیں۔‘
جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انھیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔ جنرل مٹھا نے اپنے پیچھے ایک کتاب چھوڑی ’ان لائکلی بگننگس۔اے سولجرز لائف، بمبئی سے جی ایچ کیو تک۔‘
لیفٹینینٹ جنرل ارشاد احمد خان
1971 کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انھوں نے شکر گڑھ کے 500 دیہات بلامزاحمت دشمن کے حوالے کر دیے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد گمنام ہو گئے۔
میجر جنرل عابد علی زاہد
ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انھوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں 98 گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو انڈین دستے مرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔ مگر یہ راز میجر جنرل عابد زاہد جنگ بندی کے بعد ہی جی ایچ کیو کے علم میں لانے کی ہمت کر سکے۔
میجر جنرل بی ایم مصطفی
ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔
لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی
جنرل نیازی جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے اس وقت تک وہ فوج کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر مانے جاتے تھے۔ انھیں دوسری جنگِ عظیم میں برما کے محاذ پر بے جگری سے لڑنے پر ملٹری کراس اور ٹائیگر کا خطاب ملا تھا۔
جب بیشتر جنرلوں نے ایسٹرن کمان کی پوسٹنگ لینے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کر دیا تو نیازی نے خود کو اس کام کے لیے پیش کر دیا۔
کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں نے جنرل نیازی پر اخلاقی بے راہ روی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے۔
میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ ’یہ میں کیا سُن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہو گئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے۔‘
جنرل نیازی کے خلاف 15 الزامات میں کورٹ مارشل کی سفارش کی گئی۔ بھٹو حکومت نے جنرل نیازی کو رینکس اور ہلالِ جرات سمیت تمغے اور پنشن ضبط کر کے برطرف کر دیا۔
انھوں نے اپنی کتاب ’دی بٹریل آف ایسٹ پاکستان‘ میں اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ ایک سیاسی جماعت بھی بنائی۔ بھٹو کے خلاف تحریک میں پی این اے کے جلسوں سے بھی خطاب کرتے رہے۔ مرتے دم تک اپنے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرتے رہے لیکن کسی حکومت نے بوجوہ دھیان نہیں دیا۔
دو فروری 2004 کو وفات پائی اور سادگی سے دفن ہو گئے۔
میجر جنرل محمد جمشید (کمانڈر 36 ڈویژن)
ان کے ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فردِ جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ 35 لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ 16 دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد گوشہ نشین ہو گئے۔
میجر جنرل رحیم خان (کمانڈر 39 ڈویژن)
ان کا ڈویژن کومیلا میں متعین تھا۔ پسپائی اختیار کرتے ہوئے زخمی ہو گئے اور 12 یا 13 دسمبر کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے علاقے اراکان میں اتر گئے۔ مگر قسمت مسلسل یاوری کرتی رہی۔ سیکریٹری جنرل وزارتِ دفاع اور چیئرمین پی آئی اے رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس صدر بھی رہے۔
بریگیڈیئر باقر صدیقی (چیف آف سٹاف، ایسٹرن کمانڈ)
وہ ڈھاکہ کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں میں سے ایک اور جنرل نیازی کی ناک کا بال تھے۔ ان پر الزام ہے کہ 10 دسمبر کو جب جی ایچ کیو نے یہ احکامات جاری کیے کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑیں تو باقر صدیقی نے اس پلان پر عمل نہیں کیا۔
ان کے بریگیڈ نے جنرل ناگرہ کے سامنے رسمی طور پر ہتھیار ڈالے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دورانِ قید ان کے تعلقات نگراں انڈین افسروں سے اتنے بہتر ہو گئے کہ کلکتہ میں کیمپ سے کبھی کبھار باہر جا کر شاپنگ بھی کر لیتے تھے۔
بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کر کے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصے پی آئی اے شیور کے بھی سربراہ رہے۔
بریگیڈیئر محمد حیات (کمانڈر 107 بریگیڈ، 39 ڈویژن)
ان کا بریگیڈ جیسور سیکٹر کا ذمہ دار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چھ دسمبر کو ہی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگا۔ بعد ازاں ریٹائر کر دیا گیا۔
بریگیڈیئر محمد اسلم نیازی (کمانڈر 53 بریگیڈ، نو ڈویژن)
ان کا بریگیڈ لکشم کے علاقے میں تعینات تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ نو دسمبر کو 124 بیمار اور زخمی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے۔ اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔

ØÙÙد اÙرØÙا٠کÙÛØ´Ù: سابÙÛ ÙشرÙÛ Ù¾Ø§Ú©Ø³ØªØ§Ù Ú©Û Ø¹ÙÛØØ¯Ú¯Û Ú©Û Ø°ÙÛ Ø¯Ø§Ø± Ú©ÙÙØ - BBC News اردÙ
ستتر ÙÛÚº ØÚ©ÙÙت کا ØªØ®ØªÛ Ø§Ùٹا جاÙØ§Ø Ø¨Ú¾Ù¹Ù Ú©Û Ù¾Ú¾Ø§ÙسÛØ Ø¨Ø¹Ø¯ ÙÛÚº Ø¢ÙÛ ÙاÙÛ ØÚ©ÙÙتÙÚº Ú©Û Ø§Ú©Ú¾Ø§Ú Ù¾ÚھاÚØ Ø¨ÙØ§Ø³Ù¾ØªÛ Ø§ØªØادÙÚº Ú©Û ØªØ´Ú©ÛÙØ Ú©Ø§Ø±Ú¯Ù Ø§Ùر Ùشر٠کا برسر اÙتدار Ø¢Ùا اÙر Ûر ØÚ©ÙÙت پر غÛر ÛÙÛÙÛ Ú©Û Ø¨Ø§ÙØ±Ø¯Û Ø³Ø§Ø¦ÛÛÛÛ Ø§Ø³...

- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/b52CczQ/hamodoh1i11h.jpg