
انسانی حقوق کی معروف کارکن اور ریاستی جبر کے خلاف سرگرم مزاحمت کار گلزادی بلوچ نے جیل سے ایک دل دہلا دینے والا پیغام جاری کردیا۔۔۔۔۔۔۔
گلزادی بلوچ کا جیل سے جھنجھوڑ دینے والا پیغام کچھ یوں ہے کہ بلوچ خواتین محض حادثاتی طور پر اس جدوجہد کا حصہ نہیں بنیں وہ شعور اور شعریت کے ساتھ اس تحریک کا حصہ ہیں ہمیں نہ دھمکیاں روک سکتی ہیں نہ جبری گمشدگیاں اور نہ بندوق کی زبان اگر جبر کسی کو خاموش کرا سکتا تو دو ہزار چھ کے بعد ماہ رنگ جیسی بچی مزاحمت کا استعارہ نہ بنتی اگر ظلم حل ہوتا تو دودا کی سمی ریاست کے یزید کو للکارنے والی نہ بنتی
انہوں نے کہا اگر تشدد سے نظریات دبائے جا سکتے تو راشد حسین کی ماں محض ایک غمزدہ عورت ہوتی لیکن آج وہ پورے بلوچستان کی ماں بن چکی ہیں اگر بندوق ذہنوں کو غلام بنا سکتی تو آج میں گلزادی بلوچ قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود تمہارے سامنے مزاحمت کا نشان نہ بنتی تم نے چار گھنٹے مسلسل مجھ پر تشدد کیا لیکن میرے نظریے کو نہ توڑ سکے
گلزادی نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ بلوچستان کی ہزاروں خواتین اپنے لاپتہ مسخ شدہ پیاروں کی تلاش میں جان ہتھیلی پر رکھ کر ریاستی جبر کے سامنے کھڑی ہو چکی ہیں ان کا کہنا تھا کہ یہ مزاحمت صرف آنسوؤں یا جذبات کی پیداوار نہیں بلکہ ایک باشعور پختہ ارادوں والی تحریک ہے
یہ پیغام نہ صرف بلوچ خواتین کی جدوجہد کو ایک نئی روح دے رہا ہے بلکہ ریاستی پالیسیوں پر بھی ایک سنجیدہ سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے کیا تشدد اور خوف واقعی کسی نظریے کو شکست دے سکتے ہیں یا وہ صرف مزید مزاحمت کو جنم دیتے ہیں
گلزادی بلوچ کا پیغام ایک چیخ ہے ایک سوال ہے اور ایک واضح اعلان کہ ہم نہ رکیں گے نہ جھکیں گے
Last edited: