ہم خواجہ سرا کے بچے کی طرح ارشد ندیم کو چوم چوم کر مار رہے ہیں،جاویدچوہدری

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
jaidah1i1h21.jpg

ہم اگر اس بیک گراؤنڈ میں ارشد ندیم کو رکھ کر دیکھیں تو کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں مثلاً ارشد ندیم نے بے شک انتہائی نامساعد حالات‘غربت اور ٹریننگ کی سہولتوں کے بغیر گولڈ میڈل لے کر کمال کر دیا‘ یہ اس شخص کا کریڈٹ ہے اور دنیا کا کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا لیکن جو کچھ اس کے بعد ہو رہا ہے کیا یہ نارمل ہے؟ ہم نے سیلی بریشنز کے ذریعے اس شخص کی مت مار کر رکھ دی‘ لوگ چیک اٹھا کر آ رہے ہیں اور ارشد ندیم چیک لے کر ان کے ساتھ تصویریں بنا رہا ہے اور یہ اب اس کا عادی ہو چکا ہے۔

یہ اب اپنے ہر ملاقاتی سے چیک‘ نقد انعام یا پلاٹ کی توقع لگا کربیٹھا رہتا ہے‘ یہ ہر فون کو انعام سمجھ رہا ہے جب کہ دوسری طرف امریکا اور چین میں ایسے 40 اور جاپان اور آسٹریلیا میں 20 اور 18 کھلاڑی ہیں اور یہ تمام لوگ نارمل زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ گولڈ میڈل کے بعد اگلے ہی دن جم گئے‘ اپنی پریکٹس کی‘ بچوں کو اسکول سے لیا‘ گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ کی جھڑکیاں کھائیں اور ٹیکس کے فارم بھرے لہٰذا سوال یہ ہے ہم نے ارشد ندیم کو نارمل کیوں نہیں رہنے دیا اور کیا یہ اب ایک نارمل زندگی گزار سکے گا؟ دوسرا سوال ارشد ندیم بے شک ایک با کمال انسان ہے‘ اس نے چالیس سال بعد پاکستان کو گولڈ میڈل سے نوازا‘ ہم نے آخری بار 1984میں ہاکی میں اولمپکس میں گولڈمیڈل لیا تھالیکن یہ سارا ایک بندے کا کارنامہ ہے جب کہ ملک میں سو کے قریب اسپورٹس آرگنائزیشنز کام کررہی ہیں‘ قوم ان پر اربوں روپے خرچ کرتی ہے‘ ان کے پاس ایکڑوں پر پھیلے کمپلیکس بھی ہیں۔

آپ ان کے بجٹ اور مراعات دیکھیں اور ان کے ملازمین اور کنسل ٹنٹس کی تعداد دیکھیں اور اس کے بعد ان سے پوچھیں آپ لوگوں نے ان چالیس برسوں میں کیا کیا ہے؟ ہم نے پیرس اولمپکس میں صرف ایک میڈل لیا جب کہ ہمارے 40 کھلاڑی اور آفیشلز پیرس گئے‘ کیا ان سے یہ نہیں پوچھنا چاہیے ان کے ٹریول‘ ہوٹلز اور خوراک اور ٹی اے ڈی اے پر کتنی رقم خرچ ہوئی؟کیا ان سے یہ بھی نہیں پوچھنا چاہیے ملک کی تمام اسپورٹس آرگنائزیشنز پر پچھلے چالیس برسوں میں کتنے ارب روپے خرچ ہوئے؟ ان اخراجات کے بعد یہ ایک بھی میڈل کیوں نہیں حاصل کر سکے اور اگر ہم نے میڈل نہیں لینا تھا تو پھر ان آرگنائزیشن کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ پیسے‘ توانائی اور وقت کا زیاں نہیں اور تیسرا سوال ‘کیا یہ حقیقت نہیں پاکستان کی تمام اسپورٹس آرگنائزیشنز‘ بورڈز اور وزارتیں ارشد ندیم کے پیچھے پناہ لے رہی ہیں۔

یہ ارشد ندیم زندہ باد کے نعرے لگا کریا اس کے اعزاز میں تقریبات منعقد کر کے قوم کی توجہ اپنی ناقص کارکردگی سے ہٹا رہی ہیں اور کیا حکومت بھی ارشد ندیم کو بار بار بلا کر اپنی نالائقی پر پردہ نہیں ڈال رہی ؟ یہ عوام کی عوامی مسائل سے توجہ نہیں ہٹا رہی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا وزیراعظم ارشد ندیم کی کام یابی کے بعد ایک تحقیقاتی کمیشن بناتے اور اسپورٹس کے تمام اعلیٰ عہدیداروںسے پوچھتے تم نے وقت پر ارشد ندیم کی سپورٹ کیوں نہیں کی تھی؟ یہ شخص جیولین کی ٹریننگ اور باقاعدہ سینٹر کے باوجود گولڈ میڈل تک کیسے پہنچ گیا اور تم اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود کانسی کا ایک تمغہ بھی کیوں حاصل نہیں کر سکے؟ تمہارے کھلاڑی ٹریننگز اور کوچنگ کے باوجود کمال کیوں نہیں کر سکے؟ میرا خیال ہے وزیراعظم کو ان سے حساب لینا چاہیے تھا۔

آپ یقین کریں ہم خواجہ سرا کے بچے کی طرح ارشد ندیم کو چوم چوم کر مار رہے ہیں‘ یہ بے چارہ کام یابی کے اتنے صدمے برداشت نہیں کر سکے گا‘ آپ اسے اگلے سال کسی میچ میں بھجوا کر دیکھ لیجیے گا‘ یہ آپ کوبری طرح شرمندہ کرائے گا‘ کیوں؟ کیوں کہ ہم نے اس کی وہ بھوک‘ وہ ڈرائیو ہی مار دی ہے جس سے اس نے جنم لیا تھا‘ ہمیں چاہیے تھا ہم اسے چھوٹا سا گھر‘ گاڑی اور تاحیات تنخواہ دے دیتے‘ اس کے نام پر ایک فنڈ بناتے‘ گورنمنٹ اور بزنس مین اس فنڈ میں رقم جمع کرا دیتے‘ اسے زمین کا ایک ٹکڑا الاٹ کر دیا جاتا‘ یہ وہاں جیولین کی اکیڈمی بنا لیتا اور اپنے جیسے بچے تلاش کر کے ان کو ٹریننگ دیتا جب کہ ہم نے اسے بھکاری بنا دیا ہے۔

ٹریننگ کے لیے اس کے پاس پہلے بھی وسائل نہیں تھے اور اب بھی نہیں ہیں‘ یہ اب بھی کھیتوں میں نیزہ بازی کی پریکٹس کرے گا‘ میری حکومت سے درخواست ہے آپ ملک کی تمام سرکاری اسپورٹس آرگنائزیشنز ختم کر دیں‘ ملک کو کسی اسپورٹس بورڈ‘ وزیر یا وزارت کی ضرورت نہیں ہے‘ یہ سرمائے‘ توانائی اور وقت کا زیاں ہے‘ آپ اس کے بجائے یہ رقم ریکارڈ ہولڈرز‘ میڈل ہولڈرز اور چیمپیئنز کو دے دیں‘ یہ اپنی اپنی اکیڈمیز اور کلب بنائیں اور نئے کھلاڑیوں کو ٹریننگز دیں‘ کھلاڑی جب ایک خاص حد کو چھو لیں تو حکومت انھیں مقابلوں میں بھجوا دے اور اگر یہ کام یاب ہو جائیں تو حکومت کی طرف سے ان کے لیے انعامات اور اعزازات فکس ہوں‘ یہ انھیں خود بخود مل جائیں‘ حکومت کا اس میں کوئی عمل دخل ہی نہ ہو‘ آپ اس میں سنگاپور اور ہانگ کانگ کی مثال لے سکتے ہیں‘ یہ دونوں ملک اولمپکس میں گولڈ میڈل لینے والے کھلاڑیوں کو ایک ملین ڈالر دیتے ہیں اور بس‘ یہ کھلاڑیوں کو ارشد ندیم کی طرح چوم چوم کر نہیں مارتے۔
 

Cape Kahloon

Chief Minister (5k+ posts)
Oh jeeday tujhay yeh bat keyoon nhi samjh aa rehe ha kay, her khelari her dafa ek se performance nhi day sakta.
Ager tu yeh soch raha ha Arshad Naseem her sal Gold medal lay ga tu tera jessa stupid koe nhi ha.
 

Rizwan2009

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی قسمت سے اس بار ارشد ندیم جیت گیا۔ کل کوئی اور کھلاڑی جیت جائے گا یہ ضروری تو نہیں کہ ہر بار ایک ہی کھلاڑی جیتے۔ یہ تو کھیل ہے کھیل میں وہی جیتتا ہے جو محنت کرتا ہے۔ کل کوئی اور کھلاڑی محنت کرے گا اور جیت جائے گا۔
 

Back
Top