یوکرائن کے خلاف روس جنگ جیتنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔

Asad Mujtaba

Chief Minister (5k+ posts)
یوکرائن کے خلاف روس جنگ جیتنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ ٹرمپ نے پوٹن اور زیلینسکی Zelensky کے ساتھ تفصیلی گفتگو کی ہے جس میں جنگ بندی کے حوالے سے تفصیلات پر غور کیا گیا ہے۔ بہت جلد پوٹن اور ٹرمپ کی ملاقات سعودی عرب میں متوقع ہے جہاں پر جنگ بندی کے عمل کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔ اس حیرت انگیز خبر نے مغربی میڈیا میں تہلکہ مچادیا ہے کیونکہ مغربی لبرلز نے یوکرائن کی جنگ کو تقریبا مقدس درجہ دیا ہوا تھا لیکن اب وہ سب شرمندہ ہیں۔ لیکن یہ جنگ کیوں ہوئی اور جنگ بندی کے بعد کیا صورتحال بننے جارہی ہے؟
یوکرائن ہمیشہ سے روس کے لئے geostrategic اعتبار سے اہمیت کا حامل رہا ہے کیونکہ مغرب کے حملہ آور، بشمول Napoleon, اسی راستے سے روس میں داخل ہوتے تھے۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد مغربی ممالک کی طرف سے روس میں مداخلت کرکے خانہ جنگی کروائی گئی (1918 سے 1921 تک) تو اس میں یوکرائن سازشوں کا مرکز رہا۔ اور پھر جب ہٹلر نے سوویت یونین پر حملہ کیا تو یوکرائن کے اندر فاشسٹوں کی ایک بڑی تعداد اسے ویلکم کرنے کے لئے موجود تھی لیکن بالآخر سوویت فوج نے انہیں عبرتناک شکست دی۔
1990 میں امریکی وزیر خارجہ James Baker نے سوویت یونین کے لیڈر Mikhail Gorbachev کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اگر آپ مشرقی یورپ کی حکومتوں کی حمایت ختم کردیں تو نیٹو ایک انچ بھی مشرقی یورپ کی طرف نہیں بڑھے گا۔ گوربا چیوف کی احمقانہ پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی یورپ ٹوٹنے کے بعد سوویت یونین بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور امریکہ دنیا کی واحد سوپرپاور بن گیا۔ اس کے ساتھ امریکہ نے روس میں Boris Yeltsin کی کٹھ پتلی سرکار کی حمایت کی اور روس سمیت سابقہ سوویت یونین کے دیگر ممالک میں خوفناک قسم کی نجکاری کی جس سے امریکی کمپنیوں اور روسی مافیا نے اربوں ڈالر کمائے جبکہ عام شہریوں کے لئے ایسی تباہی آئی کہ روس جیسے ملک میں 70 لاکھ لوگ غربت کی وجہ سے مرگئے۔ اس کے ساتھ ساتھ نیٹو نے 1999 میں Yugoslavia پر جارحیت کرکے اسے چھوٹے حصوں میں توڑ دیا اور وعدہ تلافی کرتے ہوئے کئی مشرقی یورپ کے ممالک، بشمول پولینڈ، کو نیٹو کا حصہ بھی بناڈالا۔
پوٹن، جو کہ روسی خفیہ ایجنسی KGB کا افسر تھا، اس عدم استحکام کے خلاف علامت کے طور پر ابھرا۔ وہ انقلابی نہیں تھا لیکن اس نے روسی مافیا اور سرمائے کو سرکار کے طابع کرنے کی کوشش کی اور مغربی مداخلت کو محدود کرنے پر بھی زور دیا۔ لیکن 2002 تک اس کے مغربی ممالک سے تعلقات ٹھیک رہے اور وہ war on terror میں امریکہ کا حمایتی بھی رہا۔ لیکن 2003 میں عراق پر امریکی حملے کی پوٹن نے مخالفت کی۔ 2004 میں نیٹو کی توسیع کرکے اس میں مشرقی یورپ کے سات ممالک کو شامل کرلیا گیا جس پر روس کو شدید غصہ تھا۔ 2008 میں جارجیا کی مغرب نواز حکومت، جو 2003 میں سی آئی اے کے رحیم چینج آپریشن کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی، پر روس نے حملہ کردیا اور یہ عندیہ دیا کہ وہ اپنے اردگرد محاصرہ مزید تنگ نہیں ہونے دے گا۔ 2009 میں نیٹو نے 2 مزید ملکوں کو نیٹو کا ممبر بنایا اور یہ بھی اعلامیہ جاری کردیا کہ بہت جلد یوکرائن اور جارجیا کو بھی نیٹو کا حصہ بنایا جائے گا۔
یہ معاملات روس کے لئے ناقابل قبول تھے کیونکہ نیٹو کی بنیاد 1949 میں روس کی مخالفت کے لئے ڈالی گئی تھی اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس کا کوئی جواز باقی نہ رہا تھا۔ لیکن اس کو ختم کرنے کے بجائے اس میں مسلسل توسیعی کئے جانے لگی۔ اسی طرح سی آئی اے نے یوکرائن میں 2014 میں ایک رحیم چینج آپریشن کروایا اور وہاں ایک ایسی حکومت قائم کی جس نے مغرب کے ساتھ اقتصادی اور عسکری تعلقات بڑھانا شروع کردئے۔ اس وقت تک پوٹن امریکی پالیسی کا شدید مخالف بن چکا تھا اور اس نے امریکہ کی لیبیا پر بمباری کی کھل کر مخالفت کی اور پھر شام میں براہ راست اپنے فوجی اڈے کو امریکی اور اسرائیل نواز گروہوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔
2022 میں جنگ کی بنیادی وجہ یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت تھی جسے پوٹن نے ریڈ لائنز قرار دیا تھا جبکہ نیٹو اور امریکی نمائندوں نے اسے اپنا استحقاق کہہ کر پوٹن کی دھمکی کو رد کردیا تھا۔ یوکرائن پر حملے کے بعد پوری مغربی دنیا نے یوکرائن کی مدد شروع کردی کیونکہ ان کے خیال میں روس کو تباہ کرنے کا انہیں بہترین موقع مل گیا تھا۔ صرف امریکہ نے یوکرائن فوج کو 66 ارب ڈالر کی امداد دی اور روس پر بدترین معاشی پابندیاں لگادیں۔ اس سب کے زریعے بائڈن کو امید تھی کہ یوکرائن روس کو جنگ ہرا دے گا اور جس طرح افغان جہاد میں ایک بھی اپنا فوجی ضائع کئے بغیر امریکہ نے روس کو شکست دی تھی، وہی تاریخ اب یوکرائن میں دہرائی جائے گی۔
لیکن امریکہ پلاننگ ناکام ہوگئی۔ روس کی معیشت کو زیادہ فرق نہیں پڑا کیونکہ اس کا تیل خریدنے کے لئے یورپ کے علاوہ کئی اور ممالک، بشمول انڈیا، تیار ہوگئے۔ اسی طرح چین نے روس میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اور ایران اور شمالی کوریا نے روسی فوج کو اسلحہ فراہم کیا۔ Zelensky کو لبرلز کا ہیرو بنادیا گیا لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس کی فوج امریکی اسلحے کے باوجود روسی فوج کا مقابلہ کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس طرح کی بے مقصد جنگ میں امریکہ کا پیسہ ضائع کرنے کے بجائے وہ پوٹن سے مذاکرات کرے گا۔ اب مذاکرات کے دوران ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یہ بات بھی کردی گئی ہے کہ نہ تو یوکرائن کو نیٹو کی ممبرشپ دی جائے گی اور نہ ہی جو علاقہ روس نے قبضہ کیا ہے وہ واپس ملے گا۔ یعنی 66 ارب ڈالر اور دو دہائیوں کی سی آئی اے کی محنت ڈوب گئی۔
ٹرمپ نے یہ قدم صرف پیسہ بچانے کے لئے نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے حکمت عملی ہے۔ کیمپین کے دوران اس نے کہا تھا کہ اگر پوٹن کو ہم قریب کرلیں تو اسے چین کے شکنجے سے نکال کر چین کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح کل اس کے اس کے وزیر دفاع Pete Hegseth نے کہا ہے ہمارا فوکس اب یورپی دفاع نہیں بلکہ ایشیا کو تحفظ دینا ہے، جس اس کی مراد ایشیا میں چین مخالف اتحاد بنانے کو ترجیح دینا ہے۔ اس بدلتی ہوئی پالیسی کے تحت امریکہ نے کہا ہے کہ اب یوکرائن کے ساتھ امن معاہدے کے بعد یوکرائن کی تعمیر نو کا بوجھ بھی یورپ اٹھائے جس کی قیمت 3 کھرب ڈالر بتائی جارہی ہے اور نیٹو پر بھی اب امریکہ زیادہ پیسہ لگانا نہیں چاہ رہا جس کی وجہ سے اس نے تمام یورپی ممالک سے کہا ہے کہ وہ اپنا دفاعی بجٹ دگنا کردیں۔
اس سب سے یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہوگا کہ امریکہ امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ محدود وسائل کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی یہ ایک کوشش ہے جس میں بنیادی ہدف چین ہے اور اس کو شکست دینے کا بنیادی ذریعہ عسکری ہے۔ یعنی ہمارا خطہ جنگی میدان بننے جارہا ہے۔ دوسرا یوکرائن کے معاملے سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی ملک روس کی طرح ڈٹ جائے تو امریکی طاقت وہ نہیں رہی جو 1990 کی دہائی میں تھی اور اب دنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں جو امریکی پابندیوں اور محاصرے کو ناکام بنانے میں مدد دینے کے لئے تیار ہیں۔ اور تیسری بات یہ کہ اب امریکی کیمپ بری طرح اندرونی طور پر تقسیم ہوچکا ہے اور کئی یورپی ممالک اس وقت متبادل تلاش کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ایک نئی دنیا آہستہ آہستہ جنم لے رہی ہے جس کا مرکز امریکہ یا یورپ نہیں ہوگا۔ یوکرائن کی جنگ اس نئی حقیقت کی علامت ہے جہاں بدترین مغربی پروپگینڈے، ہتھیاروں، اور لاکھوں جانوں کے نقصان کے باوجود مغرب اپنی ایک بات نہیں منوا سکا اور پہلے سے بھی زیادہ تقسیم اور کمزور ہوگیا ہے۔ ہمارے لئے آج بھی سب سے اہم یہی ہے کہ ہم تاریخ کی سمت کے ساتھ کھڑے ہوکر امریکہ کی ایشیا میں بڑھتی ہوئی عسکری مداخلت کی بھرپور مخالفت کریں۔ حکمران طبقات سے یہ امید لگانا مشکل ہے جس کی وجہ سے عوامی سطح پر جنگ مخالف محاز بنانا انتہائی اہم ہوچکا ہے۔

 

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

آدھے سے زیادہ یوکرین کا علاقہ اسکی تمام بندرگاہوں اور قابل ذکر ائیرپورٹس اور ریلوے کے نظام پر روس نے پہلے ہی قبضہ کر لیا ہوا ہے اور یہ خبر دے رہے ہیں کہ روس جنگ جیتنے کے قریب پہنچ گیا ہے . او بھائی روس پہلے ہی جنگ جیت چکا ہے
 

Back
Top