Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ ہماری موجودہ جرنیلی کلاس سابقین سے زیادہ پالشڈ ہے جبکہ سیاستدانوں کی حاضر کھیپ اپنے پرکھوں کے مقابلے میں یا تو کم پڑھی لکھی ہے یا پھر اس نے اپنا علم و فضل خفیہ رکھا ہوا ہے اور فوٹوکاپی سوچ پر گزارہ ہے۔
بیشتر پولٹیکل کلاس چونکہ تن آسان ہے لہذا وہ محنت طلب پالیسی سازی اور پھر اس پالیسی پر عمل کرنے اور کروانے کی طاقت و صلاحیت سے بھی بتدریج دستبردار نظر آتی ہے۔ اس کا مجموعی رویہ یہ ہے کہ ’تسی دسو اسی کی کرنا اے‘ (آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا ہے۔)
گذشتہ ایک دہائی میں بالخصوص بیشتر انتظامی یا پالیسی اصطلاحات، عسکری آپریشنز کے ٹائٹلز اور اسلحے کے نام (اصل اور مستعار) فوجی قیادت نے ہی متعارف کروائے ہیں۔
مثلاً حتف، ابدالی، غوری، غزنوی، شاہین، بابر، رعد، نصر میزائل، ضرار ٹینک، آپریشن ضربِ عضب، ضرب و آہن، راہِ نجات، عزم و استحکام، امیدِ نو، آپریشن مرگ بر سرمچار، ففتھ جنریشن وار، کائنیٹک سٹرٹیجی، ڈیجیٹل ٹیررازم، فتنہِ الخوارج وغیرہ وغیرہ۔
ان ناموں اور کاموں کے بعد بھی موجودہ آرمی چیف کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کھل کے کہنا پڑا کہ مسلح افواج آخر کب تک انتظامی خامیوں سے جنم لینے والے خلا کو اپنی قربانیوں اور شہدا کے خون سے بھرتی رہیں گی اور ہمیں ایک سافٹ سٹیٹ (ڈھیلی ریاست) کی سوچ سے نکل کے ہارڈ اسٹیٹ (آہنی ریاست) بننا پڑے گا۔
جنرل صاحب تو بس اتنا کہہ کر چلے گئے مگر مجھ جیسے پترکاروں کو وختہ پڑ گیا کہ سافٹ اور ہارڈ سٹیٹ کیا بلا ہوتی ہے؟ گوگل کی معرفت اے آئی سے رجوع کیا تو اس نے بتایا کہ سافٹ سٹیٹ کی اصطلاح پہلے پہل سویڈش ماہرِ اقتصادیات و سماجیات گونر مردال نے 1968 میں غربتِ اقوام کے اسباب پر شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ایشین ڈرامہ‘ میں استعمال کی تھی۔
لبِ لباب یہ ہے کہ سافٹ سٹیٹ ایک طرح کی طوائف الملوکی ہے۔ قوانین تو کاغذ پر ہوتے ہیں مگر عمل کوئی نہیں کرتا۔ کرپشن کی وجہ سے ریاستی عمل داری کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ ہر طاقتور فرد، جماعت اور ادارہ خود کو پھنے خان سمجھتا ہے چنانچہ اس ریاست کی اپنی آبادی اور علاقے پر گرفت ڈھیلی پڑتی جاتی ہے۔ یوں ریاست بالاخر غریب کی جورو میں تبدیل ہو کر سب کی بھابی بن جاتی ہے۔
جبکہ ہارڈ سٹیٹ (آہنی ریاست) مرکزیت پر مبنی موثر گورنننس کے قیام اور داخلی و خارجی طور پر اپنی بات، پالیسی یا قانون منوانے کے لیے عسکری و اقتصادی قوتِ نافذہ رکھتی ہے۔
جنرل عاصم منیر نے گورنننس کی بہتری کے لیے جس آہنی ریاست کی بات کی ہے اب سے سات برس قبل (نومبر 2018) انڈیا کے مشیرِ قومی سلامتی اجیت دووال نے نکسلی اور سکھ انتہا پسندی سے نپٹارے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کم و بیش یہی کہا تھا کہ ’ہمارے اندرونی و بیرونی دشمن تب تک ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے جب تک ہم ایک سافٹ ریاست کی سوچ سے نکل کر ہارڈ ریاست نہیں بنتے۔ ایسا نہیں کہ انڈیا کوئی کمزور ملک ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ گورنننس کے ڈھل مل معیار کے سبب اپنی طاقت کا موثر نفاذ نہیں کر پا رہے۔‘
اگر ہم ذرا دیر کے لیے یہ ضرب المثل کھڑکی سے باہر پھینک دیں کہ ’جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو اسے ہر شے کیل نظر آتی ہے‘ تب بھی ایک تیسری سوچ پرکھنے میں کیا حرج ہے؟
اس سوچ کے مطابق اگر سافٹ سٹیٹ کو بدنظمی و طوائف الملوکی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے تو ہارڈ سٹیٹ کی اینٹی بایوٹک ایک اور انتہا ہے جس کے مسلسل استعمال سے وائرس کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔
www.bbc.com
بیشتر پولٹیکل کلاس چونکہ تن آسان ہے لہذا وہ محنت طلب پالیسی سازی اور پھر اس پالیسی پر عمل کرنے اور کروانے کی طاقت و صلاحیت سے بھی بتدریج دستبردار نظر آتی ہے۔ اس کا مجموعی رویہ یہ ہے کہ ’تسی دسو اسی کی کرنا اے‘ (آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا ہے۔)
گذشتہ ایک دہائی میں بالخصوص بیشتر انتظامی یا پالیسی اصطلاحات، عسکری آپریشنز کے ٹائٹلز اور اسلحے کے نام (اصل اور مستعار) فوجی قیادت نے ہی متعارف کروائے ہیں۔
مثلاً حتف، ابدالی، غوری، غزنوی، شاہین، بابر، رعد، نصر میزائل، ضرار ٹینک، آپریشن ضربِ عضب، ضرب و آہن، راہِ نجات، عزم و استحکام، امیدِ نو، آپریشن مرگ بر سرمچار، ففتھ جنریشن وار، کائنیٹک سٹرٹیجی، ڈیجیٹل ٹیررازم، فتنہِ الخوارج وغیرہ وغیرہ۔
ان ناموں اور کاموں کے بعد بھی موجودہ آرمی چیف کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کھل کے کہنا پڑا کہ مسلح افواج آخر کب تک انتظامی خامیوں سے جنم لینے والے خلا کو اپنی قربانیوں اور شہدا کے خون سے بھرتی رہیں گی اور ہمیں ایک سافٹ سٹیٹ (ڈھیلی ریاست) کی سوچ سے نکل کے ہارڈ اسٹیٹ (آہنی ریاست) بننا پڑے گا۔
جنرل صاحب تو بس اتنا کہہ کر چلے گئے مگر مجھ جیسے پترکاروں کو وختہ پڑ گیا کہ سافٹ اور ہارڈ سٹیٹ کیا بلا ہوتی ہے؟ گوگل کی معرفت اے آئی سے رجوع کیا تو اس نے بتایا کہ سافٹ سٹیٹ کی اصطلاح پہلے پہل سویڈش ماہرِ اقتصادیات و سماجیات گونر مردال نے 1968 میں غربتِ اقوام کے اسباب پر شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ایشین ڈرامہ‘ میں استعمال کی تھی۔
لبِ لباب یہ ہے کہ سافٹ سٹیٹ ایک طرح کی طوائف الملوکی ہے۔ قوانین تو کاغذ پر ہوتے ہیں مگر عمل کوئی نہیں کرتا۔ کرپشن کی وجہ سے ریاستی عمل داری کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ ہر طاقتور فرد، جماعت اور ادارہ خود کو پھنے خان سمجھتا ہے چنانچہ اس ریاست کی اپنی آبادی اور علاقے پر گرفت ڈھیلی پڑتی جاتی ہے۔ یوں ریاست بالاخر غریب کی جورو میں تبدیل ہو کر سب کی بھابی بن جاتی ہے۔
جبکہ ہارڈ سٹیٹ (آہنی ریاست) مرکزیت پر مبنی موثر گورنننس کے قیام اور داخلی و خارجی طور پر اپنی بات، پالیسی یا قانون منوانے کے لیے عسکری و اقتصادی قوتِ نافذہ رکھتی ہے۔
جنرل عاصم منیر نے گورنننس کی بہتری کے لیے جس آہنی ریاست کی بات کی ہے اب سے سات برس قبل (نومبر 2018) انڈیا کے مشیرِ قومی سلامتی اجیت دووال نے نکسلی اور سکھ انتہا پسندی سے نپٹارے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کم و بیش یہی کہا تھا کہ ’ہمارے اندرونی و بیرونی دشمن تب تک ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے جب تک ہم ایک سافٹ ریاست کی سوچ سے نکل کر ہارڈ ریاست نہیں بنتے۔ ایسا نہیں کہ انڈیا کوئی کمزور ملک ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ گورنننس کے ڈھل مل معیار کے سبب اپنی طاقت کا موثر نفاذ نہیں کر پا رہے۔‘
اگر ہم ذرا دیر کے لیے یہ ضرب المثل کھڑکی سے باہر پھینک دیں کہ ’جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو اسے ہر شے کیل نظر آتی ہے‘ تب بھی ایک تیسری سوچ پرکھنے میں کیا حرج ہے؟
اس سوچ کے مطابق اگر سافٹ سٹیٹ کو بدنظمی و طوائف الملوکی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے تو ہارڈ سٹیٹ کی اینٹی بایوٹک ایک اور انتہا ہے جس کے مسلسل استعمال سے وائرس کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔

ہارڈ یا سافٹ سٹیٹ کی جگہ ایک بار مکمل آئینی ریاست بن کر تو دیکھیں: وسعت اللہ خان کی تحریر - BBC News اردو
پاکستان نے 78 برس میں متعدد بار ہارڈ اور سافٹ ریاست بننے کا تجربہ کر لیا۔ اب ایک آدھ بار مکمل آئینی ریاست بننے کا تجربہ بھی کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔
