3 ارب 20 کروڑکے سیلز ٹیکس فراڈ کیس ملزم کی 100 روپے کے مچلکوں پرضمانت

2soosrupmezamanst.png

اسلام آباد ہائی کورٹ نے 3 ارب 20 کروڑ روپے کے سیلز ٹیکس فراڈ کیس کے شریک ملزم، شاہد حسین خواجہ، کی ضمانت صرف 100 روپے کے مچلکوں پر منظور کر لی ہے۔ جسٹس بابر ستار نے اس کیس میں 10 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا، جس میں ٹیکس حکام کے رویے اور قانونی کارروائی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

عدالت نے واضح کیا کہ فرسٹ ویمن بینک کی امپیریل کورٹ برانچ کراچی کے مینیجر، شاہد حسین خواجہ، کو کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر گرفتار کیا گیا۔ یہ الزام تھا کہ انہوں نے کینیسس انرجی اور پاور کمپنی کے اکاؤنٹ کھولنے میں سہولت فراہم کی۔ تاہم، ریاست کی جانب سے درخواست گزار کے خلاف جرم میں ملوث ہونے کا کوئی قابل اعتبار مواد پیش نہیں کیا گیا۔

جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے قانونی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ملزم کے خلاف کرمنل کارروائی کی، جو غیر قانونی اور آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے ٹیکس حکام کے اس رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ زیادہ ٹیکس جمع کرنے کی کوشش میں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا اور بنیادی آئینی حقوق کو مجروح کیا گیا۔

عدالتی فیصلے میں ذکر کیا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے تاج انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ کے کیس میں ایک اہم فیصلہ دیا تھا، جسے سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ اس کے باوجود ٹیکس حکام نے اس فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شاہد حسین خواجہ کو گرفتار کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کیس میں مجسٹریٹ کی جانب سے ملزم کے ریمانڈ دینے اور ماتحت عدالت کی جانب سے ضمانت مسترد کرنے کے فیصلے کو باعث شرم قرار دیا۔ جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ ماتحت عدالت نے سیلز ٹیکس ایکٹ کی شقوں اور آئینی حقوق کا خیال نہیں رکھا اور محکمہ ٹیکس کے گمراہ کن اقدامات کو قبول کر لیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ اس فیصلے کی کاپی چیئرمین ایف بی آر کو بھیجی جائے اور اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں ٹیکس افسران کو سیلز ٹیکس سے متعلق کارروائیوں کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اگر آئندہ قانون کی خلاف ورزی ہوئی تو ٹیکس حکام کو اختیارات کے ناجائز استعمال پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عدالت نے 100 روپے کے مچلکوں کے عوض شاہد حسین خواجہ کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا کہ کرمنل کارروائی کی قانونی حیثیت کا تعین ٹرائل کورٹ کرے گی، لیکن موجودہ شواہد کے مطابق درخواست گزار کے خلاف کوئی مضبوط بنیاد موجود نہیں ہے۔
 

Back
Top