
امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں اور تاجروں کے ایک بااثر گروپ نے حالیہ دنوں اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور اسلام آباد میں ایک سینیئر سرکاری عہدیدار سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ ملاقاتیں سیاسی منظرنامے میں ایک نئی پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہیں، جنہیں پی ٹی آئی کے لیے ممکنہ ریلیف حاصل کرنے کی غیر رسمی اور پس پردہ کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، یہ ملاقاتیں ان بیک چینل کوششوں سے علیحدہ ہیں جو ماضی قریب میں پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کے درمیان جاری تھیں، اور جن میں تاحال کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم یہ امکان موجود ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت مستقبل قریب میں دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مستقل طور پر یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کرے گی اور یہ سیاسی جماعتوں کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ باہم گفت و شنید کریں۔ اس کے باوجود، پی ٹی آئی کے بعض رہنما پس پردہ رابطے بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی — بالخصوص ڈاکٹرز اور تاجر — ایک غیر رسمی رابطہ پل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ان کے حالیہ رابطے بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک نرم مزاجی کی نئی کوشش ہیں، جو عمران خان کے لیے ممکنہ ریلیف کی راہیں ہموار کر سکتی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو ریلیف ملنے کا انحصار بڑی حد تک سوشل میڈیا کی حکمت عملی اور پارٹی چیئرمین کے طرزِ بیان پر ہوگا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ اور بیرونِ ملک چیپٹرز — بالخصوص امریکا اور برطانیہ میں — فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
ان مہمات میں بعض اوقات جھوٹی معلومات بھی پھیلائی گئیں، جنہیں ملکی اداروں کو کمزور کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، عمران خان کی رہائی کے لیے بین الاقوامی دباؤ پیدا کرنے کی غرض سے واشنگٹن، لندن اور دیگر عالمی دارالحکومتوں سے بھی رابطے کیے گئے۔
پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت خود اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پارٹی کی حالیہ مشکلات کی ایک بڑی وجہ اس کا جارحانہ سوشل میڈیا بیانیہ ہے۔ ان رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اس رویے میں تبدیلی کے بغیر عمران خان کی رہائی اور پارٹی کی بحالی ممکن نہیں۔
پارٹی کی موجودہ حکمت عملی نہ صرف داخلی سطح پر مسائل پیدا کر رہی ہے بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات اور اقتصادی پوزیشن پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو متاثر کرنے کی کوششوں اور فوج پر عالمی پابندیاں لگوانے کی خواہشات نے پارٹی کے مؤقف کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔
اب جب کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا وفد عمران خان سے ملاقات کر چکا ہے، یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ آیا پارٹی قیادت اور اس کا سوشل میڈیا ونگ اپنے رویے میں کوئی نرمی لاتا ہے یا نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی فوج کے خلاف تنقید روک دیتی ہے اور منفی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے تو عمران خان کو ریلیف ملنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
اس وقت پی ٹی آئی اور اس کے ہمدردوں کے لیے سب سے اہم مقصد یہی ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان کو قانونی و سیاسی ریلیف حاصل ہو۔ تاہم یہ ریلیف محض نعرے بازی اور دباؤ کی سیاست سے نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ حکمت عملی، تنقیدی لہجے میں نرمی اور اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی ترک کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔