
ماسکو: روس نے افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے اور ان پر عائد پابندیاں بھی فوری طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ یہ اقدام ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے افغانستان کی قیادت کے ساتھ روس کے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق روس کی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز طالبان پر 2003 سے عائد پابندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ طالبان کو روس نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا۔
تاحال دنیا کا کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو اگست 2021 میں امریکا کی زیر قیادت افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں آئی تھی۔ تاہم روس نے گزشتہ برسوں میں بتدریج طالبان کے ساتھ روابط استوار کیے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے طالبان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک "اتحادی" قرار دیا تھا۔
روس کا ماننا ہے کہ طالبان کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں سرگرم شدت پسند تنظیموں سے شدید سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مارچ 2024 میں ماسکو کے نواح میں ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 145 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔ امریکی حکام کے مطابق اس حملے میں داعش خراسان – جو افغانستان میں سرگرم ہے – ملوث تھی۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں داعش کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔
تاہم مغربی دنیا کی جانب سے طالبان کی بین الاقوامی سطح پر شناخت تسلیم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی خواتین مخالف پالیسیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کی ہائی اسکول اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی قدغنیں ہیں۔