Asad Mujtaba
Chief Minister (5k+ posts)
کولمبیا لاطینی امریکہ کا ایک ملک ہے جو خطے میں بہت عرصہ امریکی اڈے کے طور پر استعمال ہوا. 1970 اور 80 کی دہائی میں کولمبیا سی آئی اے اور منشیات فروشوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا جہاں سے پورے براعظم میں سوشلسٹ تحریکوں اور ممالک کے خلاف سازشیں ہوتی تھیں۔ امریکہ نے اس ملک پر فوجی آمریت اور کنٹرولڈ جمہوریت کے ذریعے اپنی گرفت مظبوط رکھی تاکہ کسی قسم کی مزاحمت کو پنپنے نہ دیا جائے۔
2 سال قبل کولمبیا کے الیکشن میں عوام نے Gustavo Petro نامی سوشلسٹ کو منتخب کیا جس نے امریکی غلامی توڑنے کا اعلان کیا۔ 1980 کی دہائی میں یہ پروفیسر ایک مسلح انقلابی تنظیم M-19 میں بھی رہ چکا تھا جس کے بعد اس نے انتخابی سیاست کا فیصلہ کیا۔ انتخابات جیتنے کے فوری بعد ہی اس کی امریکہ سے تجارت، ماحولیاتی تبدیلی اور غزہ کی جنگ کے حوالے سے تلخی شروع ہوگئی تھی۔
ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی تارکین وطن کو گرفتار کرکے ملک بدر کرنا شروع کیا تو دو جہاز کولمبیا کے تارکین وطن کو لے کر کولمبیا کی طرف بھی روانہ تھے۔ Petro نے ان جہازوں کو کولمبیا کی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی اور تارکین وطن کو واپس لینے سے انکار کردیا۔ کولمبیا کا موقف ہے کہ امریکہ نے دہائیوں تک کولمبیا کا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے لوگ روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
صدر Petro کے اس قدم کی وجہ سے ٹرمپ شدید غصے میں ہے اور اس نے کل کولمبیا پر 25 فیصد tariff لگانے کا اعلان کیا ہے۔ کولمبیا ایک غریب ملک جس کی وجہ سے حکومت نے فلحال امریکہ کا مطالبہ تسلیم کرلیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لاطینی امریکہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور کئی ممالک 150 سال کی امریکی بالادستی کے بعد ڈٹ کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس میں کیوبا، ونیزویلا نکاراگوا میکسیکو بولیویا کے ساتھ ساتھ ہوندورس بھی شامل ہے۔ ہوہندورس اس وقت لاطینی امریکی اور ویسٹ انڈیز کے ممالک کی تنظیم CELAC کی صدارت کررہا ہے اور اس نے 30 جنوری کو امریکی جارحیت کے خلاف تمام ممالک کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی صدر Xiomara Castro نے خبردار کیا یے کہ اگر امریکہ کا یہ رویہ رہا تو وہ اپنے ملک میں امریکی اڈے کو فوری طور پر بند کرنے کا حکم دے گی۔
اسی طرح غزہ کے لئے ٹرمپ نے نیا پلان دیا جس میں اس نے مصر، اردن اور دیگر عرب ممالک سے کہا ہے غزہ کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کے بجائے وہ غزہ کے شہریوں کو اپنے ممالک میں پناہ دیں۔ اس کا مقصد غزہ کو خالی کروانا ہے تاکہ اس کے وسائل امریکی و اسرائیلی کارپوریٹ سیکٹر کے لئے کھول دئے جائیں اور اسے امریکی فوجی اڈہ بنایا جاسکے۔ حیرت انگیز طور پر مصر اور اردن، جو امریکی اجازت کے بغیر چوں بھی نہیں کرتے، دونوں نے امریکی پلان کی کھل کر مخالفت کردی ہے۔
تیسری بڑی خبر چین کے حوالے سے ہے۔ ٹرمپ نے AI کے میدان میں 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا تاکہ چین کو ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیچھے رکھا جاسکے۔ لیکن Deepseek نامی چینی لیب نے ایک اوپن سورس AI لانچ کردیا ہے جس پر صرف 6 ملین ڈالر لاگت آئی لیکن وہ efficiency کے حوالے سے بہترین ٹکنالوجی ہے۔ اس کی وجہ سے بڑی بڑی امریکی اور یورپین کمپنیوں کے سٹاک گرنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ اب ان کے لئے چین پر برتری قائم رکھنا آسان نہیں رہا۔
یہ تنیوں واقعات امریکہ کی دنیا پر کمزور ہوتی ہوئی گرفت کی علامت ہیں۔ لاطینی امریکہ میں اس پیمانے پر مختلف ریاستوں کی طرف سے مزاحمت کی تاریخ نہیں ملتی۔ یہ unipolar world سے multipolar world ک طرف پیش قدمی کا اظہار ہے جس میں CELAC اور BRICS جیسی علاقائی تنظیمیں مزید اہمیت اختیار کریں گی۔ اسی طرح مصر اور اردن کی طرف سے ٹرمپ کو انکار یہ بتا را ہے کہ سامراجی کیمپ کے اندر پھوٹ بڑھتی جارہی ہے جس سے امریکہ کی طاقت مزید کمزور ہوگی۔
چین والا معاملہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے امریکہ کی کوشش ہے کہ چین کی chips کی ٹیکنالوجی تک رسائی محدود کی جاسکے تاکہ امریکہ اس میدان میں چین سے آگے رہے۔ سامراج تیسری دنیا پر حکمرانی اسی بنیاد پر کرتا ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی پر اجارہ داری ہوتی ہے جس کے زریعے وہ غریب ممالک کو اپنے وسائل کم دام پر بیچنے پر مجبور کرتا ہے جس کے زریعے غریب ممالک بہتر ٹیکنالوجی، اور اپنے عوام کے لئے بہتر خوراک اور ادویات خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس اجارہ داری کو توڑنا ایک عظیم سامراج مخالف جدوجہد ہے جس کو آج کے سوشلسٹ زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیوں کہ وہ صرف سڑک کی مزاحمت سمجھتے ہیں اور سوشلسٹ حکومتوں کی طرف سے سامراج سے لڑنے کے لئے ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے جدوجہد کو مزاحمت نہیں سمجھتے۔ چین نے پابندیوں کے باوجود ٹیکنالوجی پر برتری حاصل کرکے نا صرف سائنس میں میدان مار لیا ہے بلکہ امریکی کے ایک اہم ہتھیار یعنی اقتصادی اور تجارتی پابندیوں کو بھی بے معنی بنادیا ہے۔
یہ واقعات ایک نئی تاریخ کی طرف اشارے کررہے ہیں جس میں مغرب کی معاشی اور نظریاتی بالادستی کم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن یہ تاریخ سیدھی لکیر کی طرح واضح نہیں ہوگی۔ جس طرح کولمبیا کو پیچھے ہٹنا پڑا، اس طرح کئی جگہوں پر ہمیں عارضی پسپائی ہوگی۔ سامراج بلیک میل کا ہر حربہ استعمال کرے گا تاکہ مغرب کی 300 سالا برتری کو قائم رکھا جاسکے۔ لیکن جیسے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، امریکہ کی اصل طاقت اب اس کی معیشت نہیں بلکہ اس کی فوج ہے جس کے بجٹ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے (اس وقت ملٹری بجٹ 883 ارب ڈالر ہے)۔ امریکہ کے پاس براہ راست جنگ کے بغیر اپنی برتری قائم رکھنے کے آپشن محدود ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ممالک، جن کا ماضی ڈالری جنگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ایک دوہرائے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف امریکہ کی جنگوں میں گھس کر ہم ایک ڈوبتی ہوئی کشتی میں مختصر مدت کے لئے مال بٹور سکتے ہیں۔ لیکن اس کا نقصان 1980 کی دہائی کے نام نہاد افغان جہاد سے بھی زیادہ ہوگا کیونکہ اب امریکہ کے پاس ہمیں دینے کے لئے ڈالر بھی کم ہیں لیکن تباہی پھیلانا والا اسلحہ ماضی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
دوسری جانب ہمیں اپنے سالمیت کے سوال کو اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں اس خطے میں امریکی ایجنٹ کے کردار کو ادا کرنے کے بجائے خطے میں امن اور باہمی تعاون کے فروغ لئے کام کرنا ہوگا تاکہ اپنے سماج کو معاشی اور سماجی پسماندگی سے نکالا جاسکے۔ ہمارے حکمران طبقات short-termism کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان میں معاشی ترقی کے حصول کی خواہش بھی باقی نہیں رہی۔ ترقی پسند متبادل ناگزیر ہے۔ لیکن آج ترقی پسندوں کے لئے ہدف صرف مظلوموں کے حقوق کا تحفظ نہیں، بلکہ اس خطے کی سلامتی اور امن بھی ہماری اولین ذمہ داری ہے تاکہ پاکستان کو ایک بار پھر ڈالری جنگوں میں استعمال کرکے خطے کی تباہی کا باعث بنانے سے روکا جاسکے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ملک کو عالمی تاریخ کے رجحان کے ساتھ ہم آہنگ کرسکیں۔
2 سال قبل کولمبیا کے الیکشن میں عوام نے Gustavo Petro نامی سوشلسٹ کو منتخب کیا جس نے امریکی غلامی توڑنے کا اعلان کیا۔ 1980 کی دہائی میں یہ پروفیسر ایک مسلح انقلابی تنظیم M-19 میں بھی رہ چکا تھا جس کے بعد اس نے انتخابی سیاست کا فیصلہ کیا۔ انتخابات جیتنے کے فوری بعد ہی اس کی امریکہ سے تجارت، ماحولیاتی تبدیلی اور غزہ کی جنگ کے حوالے سے تلخی شروع ہوگئی تھی۔
ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی تارکین وطن کو گرفتار کرکے ملک بدر کرنا شروع کیا تو دو جہاز کولمبیا کے تارکین وطن کو لے کر کولمبیا کی طرف بھی روانہ تھے۔ Petro نے ان جہازوں کو کولمبیا کی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی اور تارکین وطن کو واپس لینے سے انکار کردیا۔ کولمبیا کا موقف ہے کہ امریکہ نے دہائیوں تک کولمبیا کا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے لوگ روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
صدر Petro کے اس قدم کی وجہ سے ٹرمپ شدید غصے میں ہے اور اس نے کل کولمبیا پر 25 فیصد tariff لگانے کا اعلان کیا ہے۔ کولمبیا ایک غریب ملک جس کی وجہ سے حکومت نے فلحال امریکہ کا مطالبہ تسلیم کرلیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لاطینی امریکہ میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور کئی ممالک 150 سال کی امریکی بالادستی کے بعد ڈٹ کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ اس میں کیوبا، ونیزویلا نکاراگوا میکسیکو بولیویا کے ساتھ ساتھ ہوندورس بھی شامل ہے۔ ہوہندورس اس وقت لاطینی امریکی اور ویسٹ انڈیز کے ممالک کی تنظیم CELAC کی صدارت کررہا ہے اور اس نے 30 جنوری کو امریکی جارحیت کے خلاف تمام ممالک کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی صدر Xiomara Castro نے خبردار کیا یے کہ اگر امریکہ کا یہ رویہ رہا تو وہ اپنے ملک میں امریکی اڈے کو فوری طور پر بند کرنے کا حکم دے گی۔
اسی طرح غزہ کے لئے ٹرمپ نے نیا پلان دیا جس میں اس نے مصر، اردن اور دیگر عرب ممالک سے کہا ہے غزہ کی تعمیر میں حصہ ڈالنے کے بجائے وہ غزہ کے شہریوں کو اپنے ممالک میں پناہ دیں۔ اس کا مقصد غزہ کو خالی کروانا ہے تاکہ اس کے وسائل امریکی و اسرائیلی کارپوریٹ سیکٹر کے لئے کھول دئے جائیں اور اسے امریکی فوجی اڈہ بنایا جاسکے۔ حیرت انگیز طور پر مصر اور اردن، جو امریکی اجازت کے بغیر چوں بھی نہیں کرتے، دونوں نے امریکی پلان کی کھل کر مخالفت کردی ہے۔
تیسری بڑی خبر چین کے حوالے سے ہے۔ ٹرمپ نے AI کے میدان میں 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا تاکہ چین کو ٹیکنالوجی کے حوالے سے پیچھے رکھا جاسکے۔ لیکن Deepseek نامی چینی لیب نے ایک اوپن سورس AI لانچ کردیا ہے جس پر صرف 6 ملین ڈالر لاگت آئی لیکن وہ efficiency کے حوالے سے بہترین ٹکنالوجی ہے۔ اس کی وجہ سے بڑی بڑی امریکی اور یورپین کمپنیوں کے سٹاک گرنا شروع ہوگئے ہیں کیونکہ اب ان کے لئے چین پر برتری قائم رکھنا آسان نہیں رہا۔
یہ تنیوں واقعات امریکہ کی دنیا پر کمزور ہوتی ہوئی گرفت کی علامت ہیں۔ لاطینی امریکہ میں اس پیمانے پر مختلف ریاستوں کی طرف سے مزاحمت کی تاریخ نہیں ملتی۔ یہ unipolar world سے multipolar world ک طرف پیش قدمی کا اظہار ہے جس میں CELAC اور BRICS جیسی علاقائی تنظیمیں مزید اہمیت اختیار کریں گی۔ اسی طرح مصر اور اردن کی طرف سے ٹرمپ کو انکار یہ بتا را ہے کہ سامراجی کیمپ کے اندر پھوٹ بڑھتی جارہی ہے جس سے امریکہ کی طاقت مزید کمزور ہوگی۔
چین والا معاملہ اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے امریکہ کی کوشش ہے کہ چین کی chips کی ٹیکنالوجی تک رسائی محدود کی جاسکے تاکہ امریکہ اس میدان میں چین سے آگے رہے۔ سامراج تیسری دنیا پر حکمرانی اسی بنیاد پر کرتا ہے کہ اس کی ٹیکنالوجی پر اجارہ داری ہوتی ہے جس کے زریعے وہ غریب ممالک کو اپنے وسائل کم دام پر بیچنے پر مجبور کرتا ہے جس کے زریعے غریب ممالک بہتر ٹیکنالوجی، اور اپنے عوام کے لئے بہتر خوراک اور ادویات خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس اجارہ داری کو توڑنا ایک عظیم سامراج مخالف جدوجہد ہے جس کو آج کے سوشلسٹ زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیوں کہ وہ صرف سڑک کی مزاحمت سمجھتے ہیں اور سوشلسٹ حکومتوں کی طرف سے سامراج سے لڑنے کے لئے ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے جدوجہد کو مزاحمت نہیں سمجھتے۔ چین نے پابندیوں کے باوجود ٹیکنالوجی پر برتری حاصل کرکے نا صرف سائنس میں میدان مار لیا ہے بلکہ امریکی کے ایک اہم ہتھیار یعنی اقتصادی اور تجارتی پابندیوں کو بھی بے معنی بنادیا ہے۔
یہ واقعات ایک نئی تاریخ کی طرف اشارے کررہے ہیں جس میں مغرب کی معاشی اور نظریاتی بالادستی کم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن یہ تاریخ سیدھی لکیر کی طرح واضح نہیں ہوگی۔ جس طرح کولمبیا کو پیچھے ہٹنا پڑا، اس طرح کئی جگہوں پر ہمیں عارضی پسپائی ہوگی۔ سامراج بلیک میل کا ہر حربہ استعمال کرے گا تاکہ مغرب کی 300 سالا برتری کو قائم رکھا جاسکے۔ لیکن جیسے میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں، امریکہ کی اصل طاقت اب اس کی معیشت نہیں بلکہ اس کی فوج ہے جس کے بجٹ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے (اس وقت ملٹری بجٹ 883 ارب ڈالر ہے)۔ امریکہ کے پاس براہ راست جنگ کے بغیر اپنی برتری قائم رکھنے کے آپشن محدود ہوتے جارہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ممالک، جن کا ماضی ڈالری جنگوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، ایک دوہرائے پر کھڑے ہیں۔ ایک طرف امریکہ کی جنگوں میں گھس کر ہم ایک ڈوبتی ہوئی کشتی میں مختصر مدت کے لئے مال بٹور سکتے ہیں۔ لیکن اس کا نقصان 1980 کی دہائی کے نام نہاد افغان جہاد سے بھی زیادہ ہوگا کیونکہ اب امریکہ کے پاس ہمیں دینے کے لئے ڈالر بھی کم ہیں لیکن تباہی پھیلانا والا اسلحہ ماضی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
دوسری جانب ہمیں اپنے سالمیت کے سوال کو اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ اس کے لئے ہمیں اس خطے میں امریکی ایجنٹ کے کردار کو ادا کرنے کے بجائے خطے میں امن اور باہمی تعاون کے فروغ لئے کام کرنا ہوگا تاکہ اپنے سماج کو معاشی اور سماجی پسماندگی سے نکالا جاسکے۔ ہمارے حکمران طبقات short-termism کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ان میں معاشی ترقی کے حصول کی خواہش بھی باقی نہیں رہی۔ ترقی پسند متبادل ناگزیر ہے۔ لیکن آج ترقی پسندوں کے لئے ہدف صرف مظلوموں کے حقوق کا تحفظ نہیں، بلکہ اس خطے کی سلامتی اور امن بھی ہماری اولین ذمہ داری ہے تاکہ پاکستان کو ایک بار پھر ڈالری جنگوں میں استعمال کرکے خطے کی تباہی کا باعث بنانے سے روکا جاسکے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ملک کو عالمی تاریخ کے رجحان کے ساتھ ہم آہنگ کرسکیں۔