یہ فواد مرد کا بچہ ہوتا تو اپنی بات پہ کھڑا رہتا مگر یہ چول تو بات بدل کے دو موئے سانپ کی طرح مغلظات بک کے اسی منہ سے ڈستا بھی ہے۔ فواد نر بچہ ہوتا تو بات تھی۔ اس کا تو مشکل وقت دیکھتے ہی جانگیہ گیلا ہو جاتا ہے، بہانے کرتا ہے کہ پہلے چڈی سوکھے تو باہر آوں۔ عورت آگے کر دیتا ہے فواد کہ تو سنبھال۔ چول مردود ہے
یہ فواد۔ چوہا اپنے پچھواڑے سے سوچتا ہے اور نیچواڑے سے بولتا ہے۔ فواد جتنا ذلیل ہوا ہے جورو کے ہاتھوں، شاید ہی کوئی ہوا ہو۔ فواد کے گھر میں پائجامہ بیوی پہنتی ہے اور پینٹی فواد پہنتا ہے۔ فواد بیچارے کی شکل پہ بھوک برستی ہے، عزت کی، لحاظ کی، کیونکہ گھر میں اسے یہ سب ملتا نہیں ہے۔ فواد گدھے کی طرح رینکتا ہے اور بکریوں کی طرح جگہ جگہ مینگنیاں کرتا پھرتا ہے کہ مجھے گھاس ڈالو۔ فواد بولایا پھرتا ہے، لڑتا جھگڑتا ہے کہ مجھے عہد رفتہ کی طرح مسندوں پہ بٹھاو، مجھ پہ جان نچھاور کرو، میری ایک آواز پہ واری جاو، مگر جواب ملتا ہے: ڈبو بکواس بند کر۔ تیری طرح کا کوئی بے غیرت نہ ہو گا۔ اچھے وقت میں عزت پیسہ توجہ سب باپ کا مال سمجھ کر ڈکار جاتا ہے اور جس کے توسط سے ملا اس کے مشکل وقت میں فلسفہ بگھار کے مار کھائے کتے کی طرح چاوں چاوں کرتا بھاگ جاتا ہے۔ فواد سالے مرد بن کسی زنخے کی اولاد اور حلال کر اپنی نتھ اترائی ورنہ آئیندہ کبھی کھڑے ہو کے پیشاب نہ کرنا حرام کے تخم۔