۔جب امت کی رہنمائی کے ذمہ دار محترم علماے کرام ؛امت کے مردوں، عورتوں، بوڑھوں، طلبا و طالبات اور حتیّٰ کہ معصوم شیر خوار بچوں کو زبحہ کرنے والے طالبانوں کا نام لینے، انکی مذمت کرنے سے (اپنی جان بچانے کیلیے یا انکے ساتھ ہمدردی و متفق ہونے کی وجہ سے) بھاگتے پھریں تو پھر ایسے معاشروں پر خدا کا عذاب ہی آ ے گا؛ نصرت خداوندی اترنے سے تو رہی
ادھر ادھر کی باتیں چاہے جتنی مرضی کروا لو. جن کمزور طبقات کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آنا؛ انکو ہر عذاب کا ذمہ دار قرار دلوا لو ، بیشک انکی مذمت پر مبنی ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹے کے بھاشن دلوا لو، ہر ریڈی میڈ لیکچر پہلے سے تیار ہے. مگر خبردا ر جو ان سرفروش و حق گو علماے کرام کے منہ سے اپنے ہی فرقہ کے بھائی بندوں(طالبان) کی مذمت میں ایک لفظ بھی نکل جاے. پورے پندرہ سال ہو گے کہ ان حق گو علماءاسلام کی صفوں میں طالبان دہشت گردوں کے متعلق ایسی تاریک رات کی سی خاموشی ہے کہ انکے لاکھوں مریدین کو نہ یہ علم ہے کہ طالبان صحیح ہیں یا غلط؛ انکا ساتھ دینا چاہیے کہ نہیں اور نہ ہی علماء کرام کو پروا کہ کون سا مرید فاٹا جا رہا ہے اور کون سا کسی مزار پر پھٹنے کیلیے سخی سرور کے مزار
بھلے وقتوں میں علماے کرام ظالموں ، قاتلوں، ڈاکوؤں کے خلاف سچ بولنے پر مسکراتے ہوے تختہ دار پر چڑھ جاتے تھے، آجکل ظالموں /قاتلوں کے خلاف خود سکوت فرماتے ہوے صرف دوسروں کو حق گوئی اور موت سے پیار کرنے کے بھاشن دیتے ہیں ، اوپری لیکچر کی طرح اور خدا کی تمام نعمتوں سے خوب لطف اندوز ہوتے ہوےاپنے لیے دراز عمر کے سامان پیدا کرتے ہیں