عرفان صدیقی نے نوازشریف سے متعلق گزشہ روز بڑا انکشاف کیا جس میں انکا کہنا تھا کہ جوبات میں ابھی بتانےلگاہوں اسکےبارےمیں نوازشریف صاحب نےمجھ سےیہ وعدہ لیاتھاکہ آپ یہ بات ڈسکلوزنہیں کروگےاب چونکہ الیکشن ہوچکےہیں اسلئےمیں بتارہاہوں ۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ لندن میں میاں صاحب سےمیری ون آن ون میٹنگ ہوئ تھی اسمیں میاں صاحب نےبتادیاتھاکہ میں چوتھی باروزیراعظم نہیں بنناچاہتا۔
اس پر مختلف صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نوازشریف کے پرانے بیانات اور اخباری تراشے شئیر کرتے رہے اور کہا کہ اگر وزیراعظم نہیں بننا تھا تو اخبار میں وزیراعظم نوازشریف کا اشتہار کیوں دیا اور دوسرا کیا نوازشریف عوام کو دھوکہ دیتے رہے؟
مطیع اللہ نے اس پر اخبار کا اشتہار شئیر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وزیراعظم نوازشریف، مطیع اللہ جان نے کہا کہ تو کیا نواز شریف انتخابی جلسوں میں ووٹروں سے غلط بیانی کرتے رہے ؟ ووٹ کو دھوکہ دو ؟
زبیر علی خان نے اس پر کہا کہ اگر عرفان صدیقی صاحب کی نوازشریف کی وزیراعظم بننے کی خواہش نہ رکھنے کی بات پر یقین کر لیا جائے تو پھر وہ اخبارات میں وزیراعظم نوازشریف کے اشتہارات، پاکستان کو نواز دو کے نعرے وہ سب دھوکہ تھا؟
انہوں نے مزید کہا کہ مطلب نوازشریف عوام کو دھوکے میں رکھ کر ووٹ لینا چاہتے تھے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر عرفان صدیقی پھر دروغ گوئی سے کام لے رہے ہیں۔۔۔ دونوں صورتوں کوئی ایک تو جھوٹا ہو گیا !!!
کامران واحد نے ردعمل دیا کہ عرفان صدیقی نے لگتا ہے نواز شریف کو ذلیل کرنے کی سپاری لی ہے
علی سلمان علوی نے کہا کہ نوازشریف وزیراعظم بننے پر آمادہ نہیں تھے لیکن 8 فروری یعنی پولنگ ڈے پر بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ جوڑ کر خدا کے واسطے دے کر سادہ اکثریت مانگ رہے تھے۔
سعادت یونس نے تبصرہ کیا کہ شرم نہیں آتی عمر کے اس حصے میں بھی جھوٹ بولتے ہوئے۔ تو الیکشن کس لئے لڑا تھا؟
عبدالمجید مہر کا کہنا تھا کہ یہ اخبارات میں الیکشن سے پہلے وزیراعظم نواز شریف کے اشتہارات اور پاکستان کو نواز دو کی کمپئین تو ن لیگی کارکنوں کو چونا لگانے کے لئے کی گئ تھی ؟ یہ لوگ 2024 میں بھی عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں ؟