رجیم چینج سے امریکہ کو فائدہ ہوا یا نقصان

xshadow

Minister (2k+ posts)
حالیہ امریکی ایمبیسڈر کی تحریک انصاف کی قیادت سے ملاقات کی وجہ بہت صاف اور واضح ہے۔
اب امریکہ کو معلوم ہے کہ 25 کروڑ آبادی کا ملک امریکہ کو زمہ دار سمجھتا ہے رجیم چینج کا اور آج نہیں تو کل قدرت اس قوم کو بھی موقع دے گی اپنے سارے حساب کتاب چکتا کرنے کا۔
اسی لیے امریکن آکر اکلوتی عوامی جماعت سے خیر سگالیاں کررہے ہیں تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ یہ عاصم منیر ہو یا قاضی' اپنے طور پر حرامخوریاں فرمارہے ہیں۔ اور امریکہ کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ڈر یہ ہے کہ ایک ایران سنبھالا نہیں جارہا اوپر سے ایک اور بن گیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ کیونکہ بھارت اپنی معیشت ٹھیک کرنے میں زیادہ دلچسپی دکھاتا ہے بجائے اسکے کہ چین سے خوامخواہ کا پنگاہ لے لے۔ اسلیے امریکہ کا اکلوتا اتحادی پاکستان بھی ہاتھ سے نکل گیا تو ہاتھ کچھ بھی نہیں آئیگا۔

معاشی مسائل کا ادراق ابھی شاید کسی کو نہ ہو کہ اتنی بڑی عوام کی تعداد کو آپ معاشی طور پر معزور کردیں اور پھر یہ سمجھیں کہ یہ معاشی اثرات صرف اس عوام تک رہیں گے۔ تو یہ خام خیالی ہے۔ یہ موضوع بحث نہیں ہے اسلیے اس کو یہیں تک رکھتے ہیں۔

امریکی بھی اول بلکہ پرلے درجے کے بیوقوف نکلے ہیں۔ رجیم چینج سے انہوں نے حاصل کیا ہے وہ ایک ایک کرکے دیکھ لیں اور خود فیصلہ کرلیں کہ کیا پاکستان کی معیشت خراب کرکے انکو فائدہ ہوا یا نقصان۔


ایک تو انہوں نے اپنی خارجہ پالیسی کے فیلئیر یعنی ناکام ہونے کا اعتراف کرلیا ہے۔ ایسا ملک کیسے کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ خارجہ پالیسی چلا سکتا ہے جیسے عادت ہو رجیم چینج کی۔ اور پھر رجیم چینج کے بعد بھی وہ کچھ حاصل نہ ہوسکے جسکے لیے اتنا کھڑاک ڈالا تھا تو پھر واقعی انکی عقلوں پر ماتم کرنے کو دل چاہتا ہے۔
دوسرا یہ کہ پوری قوم کو اپنے خلاف کرلینا۔ اب جہاں کہیں پاکستانی کسی بھی امریکی سے بات کریں گے تو انکی حکومتوں کے کارنامے مرچ مسالے لگا کر بتائیں گے۔ جس سے ایک امریکی اپنی حکومت سے بد دل ہوگا چاہے اوپر اوپر سے کچھ بھی کہے اندر سے اسے معلوم ہو گا کہ رجیم چینج کا داو ہر بار نہیں چلے گا۔
تیسرا وہ لوگ بھی شامل کریں جو پاکستان سے تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے نتیجے میں امریکہ اور یورپ کا رخ کریں گے جہاں اتنی بڑی تعداد میں آبادی بڑھنے سے انکی اپنی معیشتوں کو بھی کچھ نہ کچھ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ پھر وہی تارکین وطن مزید لوگوں کو بلائیں گے۔ جتنا زیادہ پاکستانی ہوں گے اتنا ہی زیادہ وہ امریکیوں کو انکی حکومت کی کارگزاریاں بھی بتلائیں گے اور آج کل ویسے ہی آدھا کام تو سوشل میڈیا پر ہی ہوجاتا ہے۔
چوتھا یہ کہ رجیم چینج کے بعد ظاہر ہے کہ کچھ وعدے بھی پورے کرنے پڑیں گے ورنہ اگلا آرمی چیف آسانی سے نہیں مانے گا مثلاً آئی ایم ایف کا پیکج دینا پڑے گا۔ اب آئی ایم ایف ایک عالمی ادارہ ہے نہ کہ پاکستان سپریم کورٹ جہاں قاضی فائز ہونا چاہتا ہے۔ بار بار آئی ایم ایف کو دباو میں لانا بھی آسان نہیں ہے۔ پھر کہیں شمالی کوریا اور ایران آکر کہہ دیں کہ پاکستان سے زیادہ تو ہمارے ملک میں جمہوریت ہے جہاں کم از کم پولیس گھروں میں گھس کر عورتوں کی عزتیں تو نہیں لوٹتی۔ یا چلیں کہہ لیں کہ اگر پاکستانی عوام نے سارے دباو کے باوجود اپنی لیڈر منتخب کروا لیا چاہے وہ عمران خان ہو یا کوئی اور' اسکے ساتھ آئی ایم ایف کیسے ڈیل کرے گا جو پیکج دینے کے لیے راضی تھا جبکہ عوام دشمن حکومت تھی اور آج مزید شرطیں لگارہا ہے جبکہ عوام دوست حکومت ہے۔

چوتھا یہ کہ عالمی جگ ہنسائی کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کا المبردار مگر صرف اوپر اوپر سے۔ یعنی اگر کسی کو جمہوریت کا درس نہ دیتا ہو تو بھی ٹھیک ہے مگر ایک تو جمہوریت کا چیمپین بھی بننا ہے اور اوپر سے ایک ایسی حکومت کو آئی ایم ایف کا پیکچ بھی دلوانا ہے جسے عوام نے مسترد کردیا الٹا بد ترین ریاستی جبر پر بھی خاموشی۔ چلو یورپ اور آسٹریلیا کی تو مجبوری ہے امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانا مگر چین اور روس جیسے ممالک سے امریکہ کیسے بات کرسکتا ہے جبکہ اسکی خارجہ پالیسی میں اتنا تزاد ہے۔ اور یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ بیک وقت دو بڑی طاقتوں سے نہیں لڑ سکتا جن کے پنچے بہت مضبوط ہیں۔ ان دو طاقتوں سے ایک مضبوط خارجہ پالیسی ہی ڈیل کرسکتی ہے۔ مگر رجیم چینج کی ایسی عادت پڑی ہوئی ہے کہ یہ چین اور روس جیسے ممالک کو بھی رجیم چینج سے ہی اپنا ماتحت کرنا چاہتے ہیں۔


یہی ایک المیہ ہے کہ ایک قوم دوسری کو ماتحت کرنا چاہتی ہے وہ بھی طاقت کے زور پہ حالانکہ یہ قائنات اتنی بڑی ہے کہ ہر قوم یہاں آسانی سے صدیوں تک کسی دوسرے پر بوجھ بنے بغیر رہ سکتی ہیں۔ پھر بھی مان لیا جائے کہ امریکیوں کو اپنے نظریات پر ایمان کی حد تک یقین ہے تو پھر نظریاتی لڑائی لڑیں جبکہ آج کل دور بھی معلومات کا ہے۔ آج چین اور روس میں جمہوریت اسلیے نہیں ہے کیونکہ وہاں کے لوگ نہیں چاہتے۔ اسلیے نہیں کہ وہ جمہوریت کو برا سمجھتے ہیں بلکہ اسلیے کہ انہیں معلوم ہے کہ امریکی انکی حکومتوں سے لڑائی اپنے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں نہ کہ عوام دوستی میں۔ جمہوریت بیشک ایک اچھا نظام ہے جو لوگوں کو ایک طریقہ دیتا ہے اپنی بات کو دلیل اور ووٹ سے منوانے کا اور کوئی بھی اسکی مخالفت نہیں کرسکتا۔ مگر بدقسمتی سے چین اور روس جیسے ممالک کے عوام یہ جانتے ہوئے بھی اپنی حکومتوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہے کیونکہ انہیں امریکیوں پر اعتبار نہیں۔ کیونکہ امریکی پالیسیاں نام تو لیتی ہیں مگر اپنے ملک کے علاوہ کہیں بھی جمہوریت کو پسند نہیں کرتیں۔ یہی بات ہر اس ملک کے عوام جان چکے ہیں جس سے امریکہ نے محاز کھول رکھا ہے۔ اسی امریکی دشمنی کی وجہ سے روس اور چین جیسے ممالک جمہوریت نہ ہوتے ہوئے بھی طاقت پکڑ رہے ہیں حالانکہ ان ممالک میں عوامی حکومتیں نہیں ہیں۔

مزے کی بات دیکھیں کہ ترکی اور ایران جیسے ممالک جہاں کم از کم پاکستان سے اچھی جمہوریت ہے مگر ان ممالک سے بھی امریکہ خوش نہیں۔ اسی لیے آدھی دنیا یہ جانتی ہے کہ امریکیوں کو مسئلہ جمہوریت ہے ہی نہیں۔ جمہوریت کا نام لیکر بیانیہ بنانا مقصود ہوتا ہے مگر جب سے سوشل میڈیا عام ہوا ہے تب سے امریکیوں کا یہ چورن نہیں بکتا۔ امریکی خارجہ پالیسی کی انہیں غلطیوں کی وجہ سے شمالی کوریا' وینزویلا' چین اور روس جیسے ممالک موجود ہیں۔ دراصل امریکیوں کو یہ سوال اپنے آپ سے کرنا چاہیے کہ آخر انکا مسئلہ ہے کیا۔ چاہتے کیا ہیں۔ روس جو چاہتا تھا اس نے بتایا اور کسی بیانیے کا سہارا نہیں لیا بلکہ سیدھا کرکے رکھ دیا جہاں اسکے خیال میں گڑبڑ تھی۔ یقیناً غلط کیا مگر اسے وہ ملک یا قوم یہ پوچھے نہ جو حقیقی معنی میں جمہورت پر یقین رکھتی ہو۔ خود رجیم چینج کروا کر جمہوریت' آئین' ووٹر اور انصاف کا قتل کرکے روس کو جاکر کوئی کہے کہ یوکرین سے نکل جاو تو آگے سے کیا جواب آئیگا؟
You should teach others the lesson of democracy, but you have to believe in it first.