میٹرو بس کا پلاسٹک ٹوکن سے کاغذ کی ٹکٹ تک کا سفر یا کرپشن کا نیا اسکینڈل؟

meroti11h1h1.jpg


پنجاب اور اسلام آباد میں ‏میٹرو بس کے ٹوکن کیوں ختم کیے گئے؟ کہانی سامنے آگئی, صحافی فرحان نے آفیشل ٹوئٹر اکاونٹ ایکس پر لکھا کہ میٹرو بس سروس کے یہ نئے ٹوکن، کرپشن کی دکان کھولنے کے لیے ایک نیا باب ثابت ہو سکتے ہیں,غور کیجیے، بغیر سیریل نمبر کے، یہ ٹکٹ کتنے پرنٹ ہوئے، کوئی نہیں بتا سکتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کہا جائے کہ ان ٹکٹوں کی اتنی گڈیاں پرنٹ ہوئی تھیں تو آڈٹ کا بس یہی ایک طریقہ ہو گا۔اس میں سب سے بڑی قباحت کاغذی ٹکٹ کا بار بار پرنٹ ہونا ہے۔

انہوں نے مزید کہا آپ نے جب پلاسٹک کے سکے بنوا لیے تھے جو کہ کئی سالوں سے چل رہے تھے اور کمپیوٹرائزڈ بھی تھے، جن کا ریکارڈ بھی تھا کہ کتنے ٹکٹ سیل ہوئے، اور آڈٹ بھی ممکن تھا اب ان کو ختم کرنے کا مقصد کیا ہے؟ اور اب ان پرانے سکوں کا کیا ہو گا؟
https://twitter.com/x/status/1786708351365132771
فرحان خان نے لکھا پہلے ٹکٹ کاؤنٹر سے پلاسٹک کا سکہ ملنے سے پہلے اس کی کمپوٹرائزڈ مشین میں انٹری ہوتی تھی۔ پھر وہ سکہ پلیٹ فارم پر داخلے کے لیے مشین پر رکھا جاتا تھا تو مشین دیکھ لیتی تھی کہ یہ سکہ اصل ہے، ہمارے سسٹم میں اس کا اندراج ہے اور لینے والے نے پیسے دیے، تب جا کر کسی کے لیے میٹرو بس میں سفر کرنا ممکن ہوتا تھا۔

انہوں نے کہا اب کاغذی ٹکٹ کی کوئی انٹری نہیں ہے، پلیٹ فارم پر چڑھتے وقت ایک صاحب ٹکٹ دیکھ کر داخلہ کی اجازت دیتے ہیں۔ اور واپسی پر ایک اور صاحب ٹکٹ واپس لیتے ہیں۔ واپس دیے گئے ٹکٹس کیونکہ کمپوٹرائزڈ نہیں ہیں، ان کے سیریل نمبرز بھی نہیں ہیں تو دوبارہ استعمال ہو سکتے ہیں۔کمپیوٹر انجینیئر ہونے کے ناطے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ کرپشن کی غضب کہانی شروع ہو رہی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1786664204474236991