نومئی واقعات کے بعد کئی رہنماؤں نے تحریک انصاف چھوڑدی،جن میں سے بعض رہنما خاموشی سے تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں ، کچھ ساز باز کرکے پی ٹی آئی کے امیدوار بن کر الیکشن لڑچکے ہیں اور کچھ اہم عہدے بھی لے چکے ہیں
ان میں عون عباس بپی اور ملک تیمور مسعود نمایاں ہیں جنہیں بالترتیب تحریک انصاف جنوبی پنجاب اور شمالی پنجاب کا صدر بنادیا گیا ہے جبکہ بعض واپس آنے کی تیاریوں میں ہیں اور پی ٹی آئی رہنماؤں سے تعلقات استوار کرکے واپس آنیکی کوشش کررہے ہیں۔
کراچی میں علی زیدی اور عمران اسماعیل واپس آنیکی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں اور وہ اپنے حامی دھڑے اور حلیم عادل شیخ کے مخالف دھڑے سے رابطے میں ہیں جبکہ فوادچوہدری بھی تحریک انصاف کے اندر سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جب حامد خان سینیٹر بنے تو انہیں مبارکباد دینے چند سابق پی ٹی آئی رہنما آئے۔ یہ وہ رہنما تھے جو یا تو 9 مئی واقعات کی مذمت کرکے پارٹی چھوڑ چکے تھے یا تحریک انصاف کے ہی امیدواروں کے خلاف جعلی امیدوار بن کر الیکشن لڑتے رہے، ان میں سلمان شعیب، آجاسم شریف، امین ذکی نمایا تھے۔
سلمان شعیب نے ایک انٹرویو میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ عمران خان پارٹی نہیں چلاسکتے وہ پارٹی کسی اور کے حوالے کریں جبکہ 9 مئی واقعات کا ذمہ دار حماداظہر اور حافظ فرحت عباس کو قرار دیا تھا۔
اس طرح لاہور میں کچھ روز قبل اسد قیصر کیساتھ ایک میٹنگ میں وسیم رامے نامی رہنما بھی بیٹھا ہوتا تھا جو 9 مئی واقعات کی مذمت کرکے نہ صرف پارٹی چھوڑچکا تھا بلکہ استحکام پارٹی کا بھی حصہ بن گیا تھا۔
اس پر صحافی عمران بھٹی نے کہا کہ وسیم رامے نے بھی 9 مئی کی مزمت کرکے استحکام پارٹی جوائن کی تھی،،پھر استحکام پارٹی کے دفتر کا مستقل نمائندہ بھی بنا،،لیکن 8 فروری کے تباہی کے بعد خاموش ہوگیا،،اب پھر تحریک انصاف میں واپس آنے کے لیے متحرک ہے،،،اسد قیصر سے ملاقات بھی ہوچکی ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف نے لگتا ابھی بھی نہیں سیکھا
شاکر محمود اعوان نے کہا کہ جو تحریک انصاف کو اس خمار میں چھوڑ کر گئے تھے کہ "ختم شد" اب وہ ترلوں منتوں سے واپسی کی کوششیں کر رہے ہیں،،،تحریک انصاف کو ایسے گھسپٹیوں پر نظر رکھنا ہو گی
عادل راجہ نے خبر دی کہ پی ٹی آئی میں کچھ انتہائی اہم لوگ ابرار الحق کی واپسی کے لیے لابنگ کر رہے ہیں۔کیا آپ کے خیال میں اسے پارٹی میں واپس آنے دیا جانا چاہیے؟