گندم اور استعمال شدہ کاروں کی درآمد پرڈیوٹی میں اضافے کی تجاویز

2cararwhhrhdutytyizaafa.png

وفاقی حکومت نے گندم اور کاروں کی درآمدات پر ڈیوٹیز میں اضافے کی تجویز دے دی, وفاقی حکومت گندم کی درآمدات کو کنٹرول کرنے پر غور کر نے لگی,ذرائع کے مطابق حکومت گندم اور 1,300 سی سی تک کی استعمال شدہ درآمدی کاروں پر ڈیوٹیز میں اضافے کے لیے 2 علیحدہ علیحدہ بجٹ تجاویز پر غور کر رہی ہے، ذرائع کے مطابق بہت ساری درآمدی اشیاء پر مزید ایک فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے پر بھی غور کیا جارہا ہے، اس طرح قومی خزانے میں 20 ارب روپے مزید جمع کیے جاسکیں گے۔

تجاویز ابھی ابتدائی مرحلے میں ہیں، جلد ہی ان کو تائید کیلیے ٹیرف پالیسی بورڈ میں پیش کردیا جائے گا، جس کے بعد یہ بجٹ 2024-25 کا حصہ بن جائیں گی، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے 3.5 ملین میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کیلیے 1.1 ارب ڈالر اور 20 ہزار کاریں درآمد کرنے کیلیے290 ملین ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کیا۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے گندم کی بمپر فصل ہونے کے باجود گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں آج کسان گندم کی فروخت کیلیے دربدر ہورہے ہیں، حکومت نے گندم درآمد کرنے کیلیے گندم کی درآمد پر عائد 11 فیصد کسٹم ڈیوٹی کو صفر کردیا تھا۔

ذرائع کے مطابق تجویز دی گئی ہے کہ نئے فنانس بل کے ذریعے پانچویں شیڈول میں ترمیم کرکے گندم کی درآمد پر 11 فیصد کسٹم ڈیوٹی بحال کردی جائے، جبکہ استعمال شدہ کاروں کی درآمد پر 5 سے 15 فیصد امپورٹ ڈیوٹی لگانے کی تجویز بھی زیر غور ہے، اس طرح ریونیو میں 5 ارب سے 15 ارب روپے تک کا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

رواں مالی سال کے 10 ماہ کے دوران پاکستان 20 ہزار استعمال شدہ کاریں درآمد کرچکا ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں تین گنا زیاد ہیں، گزشتہ مالی سال 5 ہزار سے بھی کم کاریں درآمد کی گئی تھیں۔

دوسری جانب سابق نگران وزیر اعظم و سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے نگران حکومت کے دور میں ملک میں گندم کی درآمد کےحوالے سے وضاحت کرتے ہوئےکہا ہےکہ گندم کی درآمد اگرگناہ ہے تو یہ گناہ 2019 میں پی ٹی آئی کے دور میں بننے والے ایس آر او قانون کے تحت ہوا جو کہ اب بھی ملک میں رائج ہے۔

کوئٹہ میں پریس کانفرنس کے موقع پر سینیٹر انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میں نےگندم کے معاملےکو کبھی صوبوں اورکسی پر نہیں ڈالا، 18 ویں ترمیم کےبعد گندم کی خریداری کا ڈیٹا صوبے اکٹھا کرتے ہیں، ای سی سی کا جب فیصلہ ہوا تھا تو میں فوڈ سکیورٹی کی منسٹری کا انچارج تھا اور اس ملک میں امپورٹ پالیسی ایس آر او قانون کےتحت ہوتی ہے، پی ٹی آئی کی حکومت میں جو ایس آر او قانون جاری ہوا تھا وہ اس وقت بھی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ قانونی چیز کو غیر قانونی شکل دینےکی کوشش کی گئی اس موضوع پر کوئی صحت مند بحث نہیں کرناچاہ رہا، پاکستان میں گندم کی پیداوار 26 سے 27 لاکھ ٹن ہے، پاکستان اپنی کھپت سے3 سے 4 ملین میٹرک ٹن کم گندم پیدا کرتا ہے۔

سابق نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ یہ جو کم پیدا وار ہوتی ہے اس کے لیے طریقہ ہے کہ یا تو حکومت خود بین الاقوامی مارکیٹ سے خریداری کرے اور سبسڈائزڈ قیمت پر لوگوں کو دے تاکہ مارکیٹ مستحکم رہے، یا نجی شعبے کو اس میں ملوث کرے۔ میں کوئی مغل بادشاہ نہیں کہ گندم کی درآمد یابرآمدکا حکم جاری کرتا ، اس حوالے سے کوئی اضافی قانون یا اضافی اجازت نامہ پرائیوٹ سیکٹر کو نہیں دیا۔