خبریں

پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی کال پر متنازع میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی بل کے خلاف صحافیوں کا پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر احتجاجی دھرنا جاری ہے، سینئیر اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے دھرنے میں پہنچ گئے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت کے پیش کیے جانے والے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے قیام اور صحافیوں پر مبینہ غیر اعلانیہ پابندیوں کے خلاف صحافتی تنظیموں کا احتجاج جاری ہے، حکومت کی جانب سے مجوزہ میڈیا اتھارٹی بل کو صحافتی تنظیموں نے یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے صحافتی 'مارشل لا' کے مترادف قرار دیا ہے۔ صحافیوں کے احتجاجی دھرنے میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی اس کے علاوہ وکلا، برطرف سرکاری ملازمین، انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے دھرنے میں شریک ہیں۔ حکومتی بل کے مطابق پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے نیا قانون ہوگا جس میں میڈیا اداروں اور صحافیوں کے حوالے سے سخت قوانین تجویز کیے گئے ہیں۔ اس موقع پر سینئیر اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کا کہنا تھا کہ ملک میں میڈیا پر پہلے سے ہی پیمرا کے تحت سخت قوانین لاگو ہیں، وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں اس طرح کے بل کے متعارف کروانے کے بعد آزادی رائے پر کس قسم کی سختی کرنا چاہ رہے ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود نے پاکستان تحریک انصاف حکومت کو اقتدار میں لانے کے لئے سپورٹ کرنے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہ تبدیلی کا ساتھ دیا تھا یہ علم نہیں تھا کہ ایسی تبدیلی ہو گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف سیاسی ادوار میں میڈیا اور صحافیوں پر پابندیاں لگائی گئیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ شرمندگی کی بات نہیں ہے کہ تبدیلی کا ساتھ دیا، انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ روایتی قسم کے سیاستدانوں کا اسٹیٹس کو ختم ہو رہا ہے اور ملک بہتری کی طرف جا رہا ہے لیکن اگر ملک کسی بھی صورت میں 40 سال پیچھے چل جائے تو میری شرمندگی یا افسوف سے کیا ہو گا۔ سینئیر اینکر 2018 کے الیکشن کی شفافیت کت حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 2018 سمیت اس ملک میں کوئی بھی انتخابات شفاف نہیں ہوئے، انہوں نے مزید کہ اس ملک میں کوئی بھی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بغیر نہیں بنتی۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے پوچھا گیا تو ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ کسی بھی ملک میں موجود صحافی، سیاستدان، بیوروکریسی، فوج اور دیگر عناصر ملتے ہیں تب اسٹیبلشمنٹ بنتی ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اس قسم کے قانون کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ نہیں ہو سکتی، یہ قانون سراسر حکومت کی جانب سے متعارف کروایا جارہا ہے۔ واضح رہے کہ پی ڈی اے ’ایک آزاد، مؤثر اور شفاف‘ اتھارٹی ہو گی جو ہر قسم کے ذرائع ابلاغ بشمول ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرے گی۔اس نئے قانون کے تحت پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں چلانے کے لیے باقاعدہ حکومت سے لائسنس لینا ضروری ہو گا۔ مسودے کے مطابق کوئی بھی آن لائن اخبار، ویب ٹی وی چینل، آن لائن نیوز چینل، کسی بھی قسم کا ویڈیو لاگ، یو ٹیوب چینل، حتیٰ کہ نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم بھی ڈیجیٹل میڈیا کا حصہ ہیں، جن کے لیے لائسنس لینا ضروری ہو گا۔ مسودے میں ریاست کے سربراہ، مسلح افواج، ریاست کے قانون ساز اداروں اور عدالت کے خلاف نفرت انگیز مواد شائع کرنے پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ یہ اتھارٹی میڈیا کے اداروں سے مالی معاملات کی معلومات یا دیگر دستاویز بھی طلب کرنے کی مجاز ہو گی۔ اس کے علاوہ مسودہ میں کہا گیا ہے اتھارٹی سے لائسنس لینے والے اتھارٹی سے لکھا ہوا اجازت نامہ لیے بغیر کسی بھی غیر ملکی براڈ کاسٹر کو اپنا ایئر ٹائم نہیں دیں گے۔ ان تمام قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر تین سال تک کی سزا اور ڈھائی کروڑ روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
حکومت نے وفاقی کابینہ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کا فیصلہ کر لیا، وفاقی کابینہ سے منظوری کے لئے سمری تیار کر لی گئی۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منگل کے روز ہوگا جس میں کابینہ 14 نکاتی ایجنڈا پر غور کرے گی۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی سمری تیار کرلی گئی جبکہ تنخواہوں میں اضافے کی سمری پر فیصلہ کابینہ اجلاس میں کیا جائے گا۔ ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافے کے علاوہ وفاقی کابینہ نئی رویت ہلال کمیٹی کے لیے قانون سازی کی منظوری دے گی، کابینہ ہیوی کمرشل گاڑیوں پر ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹیز کم کرنے کی منظوری دے گی۔ 14 اگست 2021 کو ایف بی آر ڈیٹا پر سائبر حملے کے تناظر میں آپریشنل ایمرجنسی نافذ کرنے کی بھی منظوری دی جائے گی۔ وفاقی کابینہ دیامر بھاشا ڈویلپمنٹ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل نو کی منظوری دے گی، کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کابینہ ایجنڈا میں شامل ہے۔ کابینہ کمیٹی برائے ادارہ جاتی اصلاحات کے فیصلوں کی توثیق کی جائے گی۔ وفاقی کابینہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کرے گی۔ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق بھی کابینہ ایجنڈا میں شامل ہے۔
تفصیلات کے مطابق سندھ کی تحصیل سانگھڑ میں صحافیوں پر حملہ ہوا جس میں صحافی میر الطاف اور قادر ملکونائی شدید زخمی ہوگئے۔ زخمی ہونے والے صحافیوں کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما رانا ستار ان پر حملے کے ذمہ دار ہیں، صحافیوں کو شدید زخمی حالت میں مقامی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے۔ سندھ میں صحافیوں پر حملوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے صحافی برداری کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ سال 16 فروری کو سندھ کے علاقے نوشہروفیروز میں صحافی عزیز میمن کی لاش نہر سے برآمد ہوئی تھی جس پر ان کے اہل خانہ نے کہا تھا کہ ان کو قتل کیا گیا ہے۔ عزیز میمن سندھی نیوز چینل ’کے ٹی این‘ اور اخبار ’کاوش‘ سے وابستہ سینئر صحافی تھے، رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ 56 سالہ صحافی کو 30 سالہ کیریئر میں اکثر جان سے مارنے کی دھمکیاں موصول ہوتی رہی تھیں۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے ججز کی تعیناتی کے معاملے پر بار کونسل کی جانب سے احتجاج پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سمجھ نہیں آتا بار کونسلز کی ججز تقرری میں احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ججز تقرری کے معاملے پر ہمیشہ بار کونسلز کی رائے لی گئی، ججز تقرری کے معاملے پر بار کونسلز کے صدور کو متعدد بار دعوت دی، بار کونسلز کے صدور کی طرف سے بتایا گیا کہ وہ پشاور میں ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ سمجھ نہیں آتی بار کونسلز کی ججز تقرری میں احتجاج کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں، بار کونسلز اور وکلاء کے لیے اب بھی دروازے کھلے ہیں، بار کونسلز اور وکلاء ججز تقرری کے معاملے پر آ کر مجھ سے بات چیت کریں۔ گزشتہ سال عدالتوں کی کارکردگی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث مقدمات نمٹانے میں مشکلات کا سامنا رہا اور عدالتوں میں زیر التواء مقدمات میں بھی اضافہ ہوا، اس کے باوجود عدالتوں کا دروازہ عوام کے لیے کھلا رکھا گیا۔ جسٹس گلزار احمد کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر 45 ہزار 644 زیر التواء مقدمات تھے،گزشتہ سال میں 20 ہزار 910 نئے مقدمات درج ہوئے جب کہ 12 ہزار 968 مقدمات نمٹائے گئے، نمٹائے جانے والے مقدمات میں 6 ہزار 797 سول پٹیشن، ایک ہزار 916 سول اپیلیں اور 469 نظر ثانی درخواستیں، 2 ہزار 625 کرمنل پٹیشنز، 681 کرمنل اپیلیں ،37 کرمنل نظر ثانی درخواستیں اور 100 اوریجنل کرمنل درخواستیں نمٹائی گئیں۔ دوسری جانب اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ ریفرنس کا مقصد گزشتہ سال کی کرکاردگی اور نئے سال کی منزل کا تعین کرنا ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آج سے قبل بینچ اور بار کے درمیان اتنی دوریاں کبھی نہ تھیں، اب وکیل ہڑتال کرتے ہیں اور عدالتوں کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ہڑتال مزدوروں کا ہتھیار تھا جو ناانصافیوں کے خلاف استعمال ہوتا تھا، اب ہڑتال کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کے نئے سال کے آغاز پر ججز کی تعداد مکمل نہ ہونے کی بھی نشاندہی کی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ججز تقرری سمیت عدلیہ کے تمام مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت ہر وقت تیار ہے۔
سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیس میں ازخود نوٹس پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے )، چیئرمین پیمرا اورآئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کئے جانے سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ اور آئی جی اسلام آباد پولیس قاضی جمیل الرحمان عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ازخود نوٹس پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی جبکہ چیئرمین پیمرا سے چینلز کیخلاف کارروائی کے اختیار سے متعلق بھی جواب طلب کرلیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ کیا پیمرا نے صحافیوں یا چینلز کے خلاف کارروائیوں کے ایس اوپیز مرتب کئے؟پیمرا کو آئین میں کارروائی کا طریقہ کارنہیں دیا گیا اس کے لئے ایس اوپیز بتانا ضروری ہیں، سپریم کورٹ ملک کے اعلیٰ ادارے کے طور پر صحافتی آزادی کا تحفظ کرے گا، حدود ہر چیز کی مقرر ہیں،یہ واضح ہونا چاہئے کہ آپ کی حدود کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہے۔جائزہ لیں گے کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی آرٹیکل 19سے متصادم تو نہیں ہے، گائیڈ لائنز جاری کریں گے جس پر حکومت اورتمام ادارے عمل کریں گے۔ عدالت نے اگلی سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے، چئیرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد کو ذاتی حثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیےملتوی کردی۔ واضح رہے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے خلاف درخواست پریس ایسوسی ایشن آف ‏سپریم کورٹ کی جانب سےدائرکی گئی۔ 20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کی درخواست پر صحافیوں کو ہراساں کرنے پر از خود نوٹس لیا تھا اور رجسٹرار کو کیس 26 اگست کو لگانے کا حکم دیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اس ازخودنوٹس کا جائزہ لیتے ہوئے اہم سوال اٹھا دیا کہ ازخودنوٹس کا اختیار کس انداز میں استعمال ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار اور معاونت کیلئے صدر سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کئے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بنچ نے ججوں اور بیوروکریٹس کو پلاٹس الاٹمنٹ کیس پر سماعت کی۔ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی ڈپٹی کمشنر، ڈائریکٹر اسٹیٹ اور ڈائریکٹر لاء عدالت میں پیش ہوئے، ڈی سی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائیز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی کابینہ نے اس معاملے پر کمیٹی بنا دی ہے جو کابینہ کو رپورٹ پیش کرے گی۔ چیف جسسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی زمین کی تقسیم سے متعلق پالیسی وفاقی کابینہ بنائے گی، حکومت کو ہمیں واضح بتانا ہو گا کہ اس کی پالیسی کیا ہے، ایف 14 اور ایف 15 میں کتنے ممبرز ہیں جنہیں پلاٹ نہیں ملا؟ عدالت نے مزید ریمارکس میں کہ کوئی ایک ویٹنگ لسٹ بھی تو ہو گی جس میں سارے ممبرز کو باری آنے پر پلاٹ ملے گا، کرپشن اور مس کنڈکٹ پر برطرف کئے گئے ججوں کو بھی الاٹمنٹ کیسے کر دی گئی، کیا پالیسی یہی ہے کہ کرپشن کی حوصلہ افزائی کی جائے؟ عدالت نے اسلام آباد کے سیکٹر ایف 14 اور ایف 15 کی قرعہ اندازی معطل کر دی تاہم جن متاثرین سے زمین لی گئی تھی انہیں اگر کوئی الاٹمنٹ ہوئی تو اس پر معطلی کا اطلاق نہیں ہو گا۔
لاہور کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں تحریک انصاف خاطر خواہ کامیابی نہیں حاصل کر سکی جس کے بعد پارٹی نے اس پر تحقیقات کر کے اس کی وجوہات تلاش کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس حوالے سے شکست کی بنیادی وجوہات ڈھونڈ کر اس پر ایک رپورٹ مرتب کر لی گئی ہے۔ رپورٹ میں لاہور میں ترقیاتی کام سے متعلق اہم سوال اٹھاتے ہوئے صوبائی دارالحکومت کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ترجیح نہ دینے کو شکست کی اہم وجہ قرار دیا گیا۔ لاہور کے حوالے سے پارٹی کے مختلف رہنماؤں کا منفی پراپیگنڈہ بھی پی ٹی آئی کی عدم مقبولیت کی وجہ بنا۔ تحریک لبیک کے خلاف محاذ کھولنے کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ دیہی سطح پر تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھی لیکن شہری حلقوں میں تاحال چیلنجز کا سامنا ہے۔ پنجاب میں 25 فیصد کے قریب جعلی ووٹ ہیں جو سابق دور حکومت میں بنے، لاہور اور شہری حلقوں میں جعلی ووٹوں کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع بھی کرچکے ہیں اور کمیشن کو اس حوالے سے خط بھی لکھ چکے ہیں. رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا ، تاہم کچھ پارٹی رہنماؤں نے انتخابی مہم میں کام نہیں کیا۔ رپورٹ میں پارٹی قیادت اور حکومتی قیادت کےدرمیان رابطے کو بہتر بنانے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا کہ پارٹی کی تنظیم کی حکومتی سطح پر شنوائی نہ ہونا بھی شکست کی وجہ ہے۔ گزشتہ انتخابات کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواران کی عدم دلچسپی کو بھی شکست کی اہم وجہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد امیدواران نے حلقے کا رخ نہیں کیا۔ رہنماؤں کی عدم دلچسپی کے باعث کارکنان تذبذب کا شکار رہے۔
گیلپ پاکستان نے اپنے تازہ ترین سروے کے نتائج جاری کردئیے جس کے مطابق عوام نے حکومتی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گیلپ پاکستان نے ایک نیا عوامی سروے جاری کیا ہے جس میں حکومت کو ہر محاذ پر کامیاب دکھایا گیا ہے، گیلپ سروے میں70 فیصد عوام نے امید ظاہر کی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ مگر کچھ سوالات کے نتائج حیران کن ہیں کیونکہ گیلپ کی جانب سے ایک سوال پوچھا گیا کے کس صوبے کے عوام وفاقی حکومت کی کارکردگی کو برا سمجھتے ہیں؟ اس کے جواب میں پنجاب کے50 عوام نے اظہار عدم اطمینان کیا، سندھ کے 45 فیصد، خیبرپختونخوا کے 33 اور بلوچستان کے 26 فیصد عوام مرکزی حکومت سے ناخوش ہیں۔ لسانی بنیادوں پر سامنے آنے والے اعداد وشمار کے مطابق 54 فیصد پنجابی، 48 فیصد سرائیکی، 43 فیصد اردو بولنے والے، 40 فیصد سندھی، 38 فیصد بلوچی اور 29 فیصد پشتون لوگ وفاقی حکومت کی پرفارمنس سے غیر مطمئن ہیں۔ گیلپ کی جانب سے ایک سوال پوچھا گیا کہ کتنے فیصد پاکستانی اپنی صوبائی حکومتوں سے ناخوش یا غیر مطمئن ہیں؟ جواب میں پنجاب اور سندھ کے 50،50 فیصد عوام نے کہا کہ وہ اپنی حکومتوں سے غیر مطمئن ہیں، خیبرپختونخوا کے33 اور بلوچستان کے 14 فیصد عوام اپنی صوبائی حکومت سے ناخوش نظر آئے۔ جبکہ وہ لوگ جو اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں ان میں پنجاب کے 43 فیصد، سندھ کے 41 فیصد، خیبرپختونخوا کے 63 فیصد اور بلوچستان کے 76 فیصد عوام اپنی صوبائی حکومت کی کارکردگی کو مثبت دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب سروے کے مطابق 69 فیصد عوام نے حکومت کی کورونا وبا پر قابو پانے کیلئے حکومتی کارکردگی کو سراہا ہے جبکہ 58 فیصد خارجہ پالیسی سے مطمئن دکھائی دئیے جبکہ 24 فیصد غیر مطمئن دکھائی دئیے۔ معاشی محاذ کی بات کی جائے تو 45 فیصد عوام معاشی محاذ پر حکومت سے مطمئن ہے جبکہ 44 فیصد عوام غیر مطمئن ہے۔ گیلپ کے اس سروے میں 48 فیصد نے کرپشن کیخلاف حکومت کو کامیاب، 40 فیصد نے ناکام قرار دیا۔ سروے میں حکومت کی تین سالہ کارکردگی سے متعلق بھی عوامی رائے لی گئی جس میں 48 فیصد عوام وزیراعظم عمران خان کی 3 سال حکومتی کارکردگی سے مطمئن دکھائی دئیے اور 45 فیصد غیر مطمئن نظر آئے جبکہ 7 فیصد نے رائے نہیں دی۔ گیلپ کے مطابق اس سروے کا سیمپل 1200 افراد کی رائے پر مشتمل ہے اور یہ سروے 23 سے 30 اگست کے درمیان کرایا گیا۔
پاکستان کے کنٹونمنٹ بورڈز میں ہونے والے انتخابات کے نتائج پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ ہمارا دشمن نمبر ون ہونے کے باوجود بھی ہماری پارٹی کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں اچھے نتائج دے رہی ہے۔ مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں مریم نواز نے کہا کہ سب سے بڑا ٹارگٹ اور دشمن نمبر ایک ہونے کے باوجود ناقابلِ یقین طور پر مسلم لیگ (ن) کنٹونمنٹ بورڈ انتخابات میں بہت اچھا پرفارم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن پی ٹی آئی سمیت ان تمام حریفوں سے بہتر کام کر رہی ہے جنہوں نے کبھی انتخابی طاقت کی بنیاد پر مقابلہ نہیں کیا بلکہ ان کو ان دیکھی طاقتوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ مریم نواز کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل پاکستان مسلم لیگ ن کا ہوگا۔ یاد رہے کہ اتوار کے روز ملک کے 41 کنٹونمنٹ بورڈز کے 212 وارڈز میں انتخابات ہوئے جن میں 1560 امیدواروں نے حصہ لیا۔ ابھی تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے 63، مسلم لیگ (ن) 59، آزاد امیداوار 52، پیپلزپارٹی 17، ایم کیو ایم 10، جماعت اسلامی 10، بی اے پی اور اے این پی کے 2،2 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
لاہور عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج راٸے محمد یاسین شاہین نے خرم لغاری کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، دوران سماعت مقدمے کی مدعیہ خاتون نے عدالت میں ایم پی اے خرم لغاری کو معاف کرنے سے متعلق بیان دیا۔ متاثرہ خاتون نے عدالت میں بیان دیا کہ خرم لغاری کی ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہماری صلح ہوگئی ہے۔ خرم لغاری کے خلاف کیس کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتی۔ عدالت نے ایم پی اے کی عبوری ضمانت 50زار روپے مچلکے کے عوض کنفرم کر دی ہے۔ اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ نے خرم لغاری کی 31 اگست تک حفاظتی ضمانت منظور کی تھی۔ خرم لغاری کی جانب سے 28 اگست کو درخواست دائرکی گئی تھی جس میں انہوں نے مؤقف اپنایا تھا کہ خدشہ ہے کہ لاہور پہنچنے پر پولیس انہیں گرفتار کر لے گی۔ لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ نے لاہور پولیس کو کہا تھا کہ 31اگست تک خرم لغاری کو گرفتار نہ کریں جبکہ ملزم کو ضمانت کے لیے متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی۔ پنجاب حکومت کے ایم پی اے خرم سہیل لغاری کے خلاف لاہور کے تھانہ ڈیفنس اے میں متاثرہ خاتون کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ مقدمے میں دفعہ 506 بی، 452 اور 440 شامل کی گئیں۔ یاد رہے کہ 30اگست کو عدالت نے خرم لغاری کی عبوری ضمانت 13ستمبر تک منظور کرتے ہوئے پولیس سے ملزم کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان نے افغانستان کی صورتحال پر علاقائی ممالک کو ‏اعتماد میں لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یقین سے کہہ سکتا ہوں ‏کہ ہٹلر اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی میں کوئی فرق نہیں۔ ڈاکٹر معید یوسف نے کہا کہ بھارت سے متعلق حقائق کھل کر دنیا کے ‏سامنے رکھ رہے ہیں۔ پہلے کچھ چیزوں پر خاموشی اختیار کی جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ مشیر قومی سلامتی نے واضح کیا کہ پاکستان نے ڈو مور کا چیپٹر ہمیشہ کیلئے بند کر دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سی آئی اے چیف سے بھی افغانستان کے مسائل اور اس کے آنے والے وقت میں ممکنہ حل پر گفتگو ہوئی ہے، ہم ‏نہیں چاہتے کہ افغانستان میں معاشی، انسانی اور گورننس کا بحران پیدا ہو۔ انہوں نے کہا کہ مودی جس پٹڑی پر چڑھ چکا ہے یہ خود اپنا کباڑہ کرے گا۔ مودی اور ہٹلر میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ افغانستان کی ‏حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق فیصلہ وقت آنے پر ہو گا۔ امریکا سمیت تمام ممالک سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ہونے والے قائمہ کمیٹی کے بند کمرہ اجلاس میں مشیر قومی سلامتی کا کہنا تھا کہ پاکستان کسی بھی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے اور فی الحال مغربی سرحد پر کوئی خطرہ نہیں ہے۔ مستقبل قریب میں حالات بگڑنے کی توقع نہیں ہے، پاکستان نے تمام سرحدوں پر ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کی تیاری کر رکھی ہے۔
اتوار کے روز ملک کے 41 کنٹونمنٹ بورڈز کے 212 وارڈز میں انتخابات ہوئے جن میں 1560 امیدواروں نے حصہ لیا۔ ابھی تک کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج کے مطابق پی ٹی آئی کے 63، مسلم لیگ (ن) 59، آزاد امیداوار 52، پیپلزپارٹی 17، ایم کیو ایم 10، جماعت اسلامی 10، بی اے پی اور اے این پی کے 2،2 امیدوار کامیاب ہوئے۔ غیر سرکاری نتائج کے مطابق پنجاب کے کنٹونمنٹ بورڈز سے مسلم لیگ ن سب سے آگے رہی ہے جس نے پنجاب کے 113 وارڈز میں سے 51 وارڈز میں کامیابی حاصل کی، یہاں 32 آزاد امیدوار، پی ٹی آئی 28 اور جماعت اسلامی 2 وارڈز میں کامیابی حاصل کر سکی جبکہ پی پی نے یہاں کسی وارڈ میں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ سندھ کنٹونمنٹ بورڈز میں کُل 53 وارڈ تھے جن میں سے پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے 14،14 وارڈز میں کامیابی حاصل کی، ایم کیو ایم 10، آزاد امیدوار 7، جماعت اسلامی 5 اور مسلم لیگ ن 3 وارڈز میں کامیابی حاصل کر پائی۔ خیبرپختونخوا کنٹونمنٹ بورڈز کے 37 وارڈز میں سے 18 پی ٹی آئی، آزاد امیدوار9، مسلم لیگ ن 5، پیپلزپارٹی 3 اور اے این پی 2 وارڈز میں کامیاب ہوئی۔ بلوچستان کے کنٹونمنٹ بورڈ کے کل 9 وارڈ تھے جن میں سے 4 آزاد امیدوار، 3 پی ٹی آئی اور بی اے پی کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان انتخابات میں سب سے زیادہ امیدوار تحریک انصاف کے پاس تھے جن کی تعداد 183 تھی، اس کے بعد مسلم لیگ ن کے144، پیپلز پارٹی کے 113 اور جماعت اسلامی کے 104 امیدوار میدان میں تھے۔ کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے 83، ایم کیو ایم پاکستان کے 42، پاک سرزمین پارٹی کے35، مسلم لیگ ق کے 34 اور جے یو آئی کے 25 امیدواروں نے بھی الیکشن میں حصہ لیا۔
ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک وقت میں 46 ہزار سے زائد اساتذہ کی بھرتی کا عمل سندھ بھر میں شروع ہو گیا۔ خبررساں ادارے کی رپور ٹ سندھ کے وزیر تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں اساتذہ کی بھرتی پیر سے شروع ہونے جارہی ہے۔ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ سردار علی شاہ کا کہنا تھا کہ بھرتیوں کا سارا عمل آٹو میٹڈ ہے اور اس میں مکمل شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا، اس پریس کانفرنس کا مقصد ہی بھرتیوں کے پراسیس سے متعلق تحفظات کو دور کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر محکمہ تعلیم سندھ میں 46 ہزار549 اساتذہ کو بھرتی کیا جائے گا، بھرتیوں میں کسی قسم کی سفارش یا رشوت نہیں چلے گی کیونکہ سارا عمل کمپیوٹرائزڈ ہے، نوکری حاصل کرنے کے خواہش مند افراد ہر قسم کے ابہام کو دور کرکے ٹیسٹ دیں، بھرتیاں مکمل طور پر میرٹ پر ہی ہوں گی۔ وزیر تعلیم سندھ نے کہا کہ اساتذہ کی بھرتیوں کیلئے کسی کو ایک روپیہ دینے کا بھی مت سوچیں ، محنت کریں اور اپنی محنت پر یقین رکھیں، محکمے کے کسی شخص کو رشوت ستانی میں ملوث پایا تو نہ صرف اس کی نوکری جائے گی بلکہ اس کو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑے گی۔ سندھ میں اساتذہ کی بھرتیوں کیلئے محکمہ تعلیم سندھ اور آئی بی اے سکھر کے درمیان ایک معاہدہ ہوا ہے جس کے تحت کل سے صوبے میں ٹیسٹس شروع ہوں گے، سکھر آئی بی اے کے وائس چانسلر نے وزیر تعلیم سندھ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور کہا کہ امیدواروں کے خدشات کو دور کرنے کیلئے جوابی شیٹ پر امیدوار کانام اور تصویر پرنٹ کی جائے گی جبکہ جوابی شیٹ کی ایک کاربن کاپی بھی ہوگی جو امیدوار اپنے ساتھ لے جاسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کا رزلٹ 48 گھنٹوں میں دے دیں گے، امیدواروں کو اپنے ٹیسٹ کے ساتھ ایک کوڈ دیں گے جس پر بعد میں وہ آن لائن اپنی جوابی شیٹ اور اس کا رزلٹ دیکھ سکے گا کہ اس کے 100 میں سے کتنے سوالات ٹھیک تھے، ٹیسٹ میں کسی قسم کی چیٹنگ یا کسی اور کی جگہ ٹیسٹ دینے کی سزا تین سال ہے جس پر یقینی طور پر عمل کیا جائے گا۔
فیصل آباد میں کار سوا لڑکی سے بدسلوکی اور نازیبا حرکات کرنے والے تین پولیس اہلکار گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فیصل آباد میں ایک افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس میں مبینہ طور پر پولیس اہلکار نے تلاشی کیلئے روکی گئی کار میں سوار لڑکی کے ساتھ بدسلوکی اور نازیبا حرکات کیں۔ گاڑی چلانے والے لڑکے نے واقعہ کے بعد ایف آئی آر درج کروائی اور موقف اپنایا کہ وہ اپنی کزن کے ساتھ شادی کی تقریب میں شرکت کے بعد گھر واپس جارہا تھا کہ کینال روڈ پر تعینات پولیس اہلکاروں نے گاڑی رکوائی اور تلاشی دینے کا حکم دیا۔ لڑکے کے مطابق پولیس اہلکاروں نے 2 گھنٹے تک ہمیں سڑک پر روکے رکھا اور اس دوران ہمیں ہراساں کیا جاتا رہا، ایک پولیس اہلکار کی جانب سے لڑکی کی جامہ تلاشی لینے کی کوشش کی گئی اور اس سے نازیباحرکات بھی کیں۔ پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق واقعہ میں ملوث تینوں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے اور تفتیش کا آغاز بھی کردیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود نے مقبوضہ کشمیر میں کیمیکل ہتھیار استعمال کرنے کے ثبوت پیش کر دیئے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کے دوران وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیوں پر مشتمل ڈوزیئر میڈیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس ڈوزیئر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں پیلٹ گنز کا استعمال، متاثرہ بچوں کی ویڈیوز اور کیمیکل ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے ثبوت بھی شامل ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی ہو رہی ہے، بھارت کشمیریوں کی آواز دبا رہا ہے ، جب سے ہندوتوا حکومت بھارت میں آئی ہے ان پامالیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے محاصرے کو 769 دن ہو چکے ہیں، بھارت کی 9 لاکھ افواج مقبوضہ وادی پرمسلط ہیں۔ وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ آزاد مبصرین کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں، انسانی حقوق کو اس انداز میں پامال کرنا نامناسب ہے۔ سید علی گیلانی کے انتقال پر دنیا نے دیکھا کہ بھارت کی سوچ کیا تھی، ان کی وفات کے بعد اُن کے گھر کے تمام راستے بند کر دیئے گئے، یہ صورت حال دیکھ کر دنیا میں بسنے والے ہر کشمیری کو تکلیف ہوئی۔ ڈوزیئر سے متعلق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یہ ڈوزیئر 131 صفحات پر مشتمل ہے جس کے 3 حصے ہیں، پہلے حصے میں بھارت کے جنگی جرائم، دوسرے میں فالس فلیگ آپریشن تیسرے اور آخری حصے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں اور بھارت کی مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کی کوشش کا ذکر ہے۔ ہم نے 113 حوالے دیئے ہیں، 32 تنظیموں کی رپورٹس بھی اس کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تفصیلات شامل کی ہیں کہ کس طرح کشمیر میں معصوم لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے، ان کے گھروں میں اسلحہ رکھا جاتا ہے، ہم نے 1128 ایسے افراد کی نشاندہی کی ہے جو انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں، ان میں بھارتی فوج کے میجر جنرل، بریگیڈیئر اور دیگر سینئر افسران شامل ہیں، یہی نہیں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گنز کا استعمال، خواتین کی بے حرمتی اور جلائی گئی املاک کا بھی ذکر ہے۔
کچھ دن پہلے ایک مخصوص طبقے نے یکساں قومی نصاب کی ایک کتاب کا سرورق اٹھا کر بہت شور مچایا، کتاب کے اس سرورق میں ایک مرد پینٹ شرٹ پہن کر اپنے بیٹے کے ساتھ صوفے پر بیٹھا ہے اور بیٹی اور ماں حجاب پہن کر صوفے پر بیٹھی ہیں اس پر ایک طبقے نے اعتراض اٹھایا ہے کہ سنگل نیشنل کریکولم کی کتابوں میں خواتین اور طالبات کو حجاب میں کیوں دکھایا گیا ہے۔ ان کا اعتراض ہے کہ ایک لڑکی اپنے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ حجاب پہن کر کیوں بیٹھے گی؟ یہ بھی کہا گیا ہے کہ کتاب کا یہ سرورق واضح طور پر دوغلی پالیسی ہے کہ مرد مغربی ثقافت کی پیروی کر رہے ہیں جبکہ عورت کو مذہبی بناکر پیش کیا گیا ہے۔ میں نے اس خاص طبقے کو منہ توڑ جواب دینے کا فیصلہ کرلیا اور آکسفورڈ کی کتابیں اٹھالایا، میں نے آکسفورڈ کی کتابوں کا معائنہ کیا تو مجھے ان کتابوں کے سرورق بھی ایسے ہی لگے جن پر مجھے اعتراض ہے، مجھے آکسفورڈ کی ان کتابوں پر اس لئے اعتراض ہے کہ کیا عورت صرف زمین پر بیٹھنے، کھانا پکانے کیلئے پیدا ہوئی ہے؟ یہ کتابیں دیکھ کر میں بھی اپنے اعتراضات ریکارڈ کروارہا ہوں ایک کتاب کے سرورق پر مجھے ایک تصویر نطر آئی جس میں ایک بچی سیب توڑنے کی کوشش کررہی ہے اور سامنے کرسی پر بیٹھا بزرگ شخص دیکھ رہا ہے اور سیب توڑ کر بچی کو نہیں دے رہا، کیا یہ عورت کی عزت ہے مرد کی نظر میں؟ ایک اور کتاب کی تصویر میں بچہ کشتی میں سیر کررہا ہے اور بچی پل پر کھڑی انتظار کررہی ہے کہ کب وہ باہر آئے اور وہ کشتی کی سیر کرے، کیا یہ کتاب کیا سکھارہی ہے؟ کیا یہ کتاب لیڈیز فرسٹ نہیں دکھاسکتی تھی کہ لڑکی کشتی کی سیر کرتی اور لڑکا انتظار کرتا؟ آکسفورڈ ماڈرن انگلش کی کتاب میں بچہ اوپر بیٹھا پڑھ رہا ہے اور بچی ایک ٹائر پر بیٹھی ہے۔ یہ تصویر کیا سکھارہی ہے؟اگربچی گر جائے تو کیا ہوگا؟آکسفورڈ کیا سکھانے کی کوشش کررہا ہے؟ ایک بچہ اوپر بیٹھا ہے اور لڑکی خطرناک سیڑھیوں پر چڑھ کر اسے کتاب دے رہا ہے، ہماری نسل کو کیا پیغام دیا جارہا ہے؟ کیا بچہ خود سیڑھیوں سے اتر کر اپنی کتاب نہیں لے سکتا تھا۔ اگر کتاب دینا اتنا ہی ضروری تھا تو نیچے بیٹھا شخص کتاب نہیں دے سکتا؟ کیا عورت کو مردوں کے کاموں کیلئے پیدا کیا گیا ہے؟ باپ اور بیٹا پانی میں انجوائے کررہے ہیں جبکہ ماں اور بیٹی کو مکھیاں پکڑنے پر لگایا ہوا ہے۔۔ یہ آکسفورڈ ہمیں کیا پڑھا رہا ہے؟ عورت کی کوئی عزت ہے یا نہیں؟ ایک خاتون کھانا پکارہی ہے، کیا عورت کا کام کھانا پکانا رہ گیا ہے؟ مرد اپنا کھانا خود کیوں نہیں پکاتا؟ بیٹا کرسی پر بیٹھا ہے اور ماں اور بیٹی زمین پر بیٹھے ہیں۔۔ کیا یہ عورت کی عزت ہے؟ اس میں کوئی عورت نظر نہیں آرہی۔ کیا یہ آکسفورڈ والے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عورت کا کام بس کچن چلانا اور روٹی پکانا ہے؟ ان تصاویر میں صرف مرد نظر آرہے ہیں لیکن کوئی عورت نظر نہیں آرہی۔ کیا عورت انکے لئے ہانڈی پکانے اور سینڈوچ پکانے کیلئے پیدا ہوئی ہے؟ ان تصاویر میں لڑکے ریس میں حصہ لے رہے ہیں ہے جبکہ کوئی لڑکی نظر نہیں آرہی۔۔ یہ خواتین کیساتھ کیسا امتیازی سلوک ہے؟ نوٹ: یہ آرٹیکل طنزومزاح پر مشتمل ہے اور اس آرٹیکل کو لکھنے کا آئیڈیا سہیل انور کے ایک طنزیہ ٹوئٹر تھریڈ سے لیا گیا ہے۔ https://twitter.com/SohailAnwer
پی آئی اے سنٹرل ڈسپلنری یونٹ کا ایکشن، دوران ڈیوٹی موبائل استعمال کرنے والے ملازم کو گھر بھیج دیا قومی ایئرلائن (پی آئی اے) نے اپنے شعبہ ٹکٹنگ اینڈ ریزرویشن کے سپروائزر عامر علی کو دوران ڈیوٹی سوشل میڈیا کے استعمال پرنوکری سے برطرف کر دیا، مذکورہ ملازم پر الزام تھا کہ وہ ڈیوٹی اوقات کے دوران سوشل میڈیا کا استعمال کرتا تھا۔ پی آئی اے انتظامیہ نے اپنے ملازمین کو متنبہ کر رکھا تھا کہ وہ دوران ڈیوٹی موبائل کا استعمال نہ کریں جس کی خلاف ورزی پر قومی ایئرلائن نے عام علی نامی سپروائزر کو نوکری سے برطرف کر کے گھر بھیج دیا۔ مذکورہ ملازم کی برطرفی کے نوٹیفکیشن میں پی آئی اے انتظامیہ نے مؤقف اپنایا ہے کہ عامرعلی کے واجبات کی ادائیگی کلیئرنس سے مشروط ہیں، ادارے کو جب کلیئرنس ملے گی تو بقایا جات ادا کردیئے جائیں گے۔ ایئرلائن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ادارے کا سروس کارڈ، فیملی کار، ایپرن پاس اور کتابیں واپس جمع کرائے جس کے بعد ہی اس کے واجبات ادا کیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ کچھ عرصہ قبل سول ایوی ایشن نے دوران ڈیوٹی ایئرپورٹس پر موبائل کے استعمال پر پابندی عائد کی تھی جس کے تحت تمام ایئرلائنز کو نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا کہ وہ اپنے ملازمین کو دوران ڈیوٹی موبائل کے استعمال سے منع کریں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تمام رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کو بروقت انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کی ہدایات کردی ہے۔ میڈیارپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ایک مراسلہ جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مشاہدے کے مطابق تمام سیاسی جماعتیں بروقت انٹرپارٹی انتخابات نہیں کرواتیں ۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ مقررہ وقت گزرنے کے بعد سیاستی جماعتیں الیکشن کمیشن سے مہلت مانگنے کیلئے درخواست کرتی ہیں، بروقت انٹرا پارٹی انتخابات نہ کروانا قانونی اور جماعتی دستور کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو بروقت انٹرپارٹی انتخابات کروانے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہر سیاسی جماعت پابند ہے کہ وہ پانچ سال کے اندر اندر انٹرپارٹی انتخابات کروائے، ہر سیاسی جماعت الیکشن ایکٹ کی شق 208 کے تحت اپنے اپنے پارٹی آئین کے مطابق انتخابات کروانے کی پابند ہے۔
بجلی کے بلوں میں کراچی میونسپل کارپوریشن(کے ایم سی) کے ٹیکس وصول کرنے کے معاملے پر وفاق اور سندھ حکومتیں آمنے سامنے آگئی ہیں، وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے اس معاملے کی حمایت جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسدعمر نے اس کی مخالفت میں بیان جاری کردیئے ہیں۔ خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مزار قائد میں گارڈز کی تبدیلی کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت بجلی بلوں کے ذریعے کے ایم سی کے 2 ٹیکسوں کی وصولی کی تائید کررہی ہے اور اس حوالے سے کے الیکٹرک کو اجازت دینے کیلئے معاونت بھی فراہم کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند لوگ ایسے ہیں جو کے ایم سی کو مالی طور پر مستحکم ہوتا نہیں دیکھ سکتے، میں حیران ہوں کہ وہ بغیر کسی وجہ کے اس معاملے کی مخالفت کررہے ہیں، سرکاری ٹی وی کی فیس پہلے ہی بجلی کے بلوں کے ذریعے صارفین سے وصول کی جاتی ہے تو اس طریقے سے کے ایم سی ٹیکس وصولی کی مخالفت کیوں؟ اس معاملے پر وزیر خزانہ شوکت ترین اور چیئرمین نیپرا نے اجازت بھی دی تھی اور مکمل تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی تھی۔ دوسری جانب وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کے اس اقدام کی مخالفت کرے گی، وزیر توانائی حماد اظہر سے اس بارے میں بات ہوئی ہے ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے بھی اس معاملے پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ کے ایم سی کے معاملات پر تنقید کرنے والوں سے کہوں گا کہ اس ادارے کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے دیں، کے ایم سی ٹیکس کی مد میں جو بھی فنڈز اکھٹے ہوں گے وہ شہر کی تعمیر و ترقی پر ہی خرچ کیے جائیں گے، بے جا تنقید کرنے والے کراچی کے معاملات ٹھیک نہیں ہونے دینا چاہتے۔
اسلام آباد میں ڈی جی آئی ایس آئی کی میزبانی میں پڑوسی ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی ملاقات ہوئی ہے جس میں افغانستان کی بدلتی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کے اس اجلاس میں چین ، روس، ایران، تاجکستان، قازقستان، ازبکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان نے شرکت کی، اجلاس کی میزبانی کے فرائض انٹرسروسز انٹیلیجنس چیف جنرل فیض حمید نے نبھائے۔ رپورٹ کے مطابق اجلاس میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی مجموعی صورتحال سمیت خطے کی سیکیورٹی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ اس اجلاس کے حوالے سے نجی ٹی وی چینل پر اپنا تجزیہ دیتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار حارث نواز کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن کے قیام کیلئے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے، ماضی میں افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی، طالبان کو اپنی سرزمین پڑوسیوں کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہوگی، افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال کی بہتری کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حارث نواز کا مزید کہنا تھا کہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیتا رہا، اب بھارت کا پتہ افغانستان سے ہمیشہ کیلئے کٹ چکا ہے اور افغانستان میں بھارت کسی قسم کی کوئی گڑ بڑ نہیں کرسکتا، طالبان افغانستان میں امن کیلئے پاکستانی کوششوں کے معترف ہیں۔

Back
Top