اسلام آباد ہائیکورٹ میں فیصل واوڈا نااہلی کیس کی سماعت ہوئی جسٹس عامر فاروق نے سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں فیصل واوڈا بیان حلفی جمع کراتے وقت امریکی شہری تھے، عدالت کے ساتھ چھپن چھپائی کا کھیل نہ کھیلیں۔کہ سٹے کسی صورت نہیں دوں گا ،الیکشن کمیشن کا ریکارڈ دیکھ کر فیصلہ کر دیں گے
درخواست گزار وکیل بیرسٹر جہانگیر جدون نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن جا کر کہتے ہیں کہ معاملہ ہائی کورٹ میں بھی چل رہا ہے.
گزشتہ روز سماعت کے دوران فیصل واوڈا کی طرف سے ان کے وکیل عدالت پیش ہوئے اور کہا کہ فیصل واوڈا کی جانب سے عدالتی کارروائی روکنے کی درخواست دائر کی ہے۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ الیکشن کمیشن میں بھی پیش نہیں ہو رہے، ان چیزوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
۔ اس موقع پر بیرسٹر جہانگیر جدون نے عدالت کو بتایا کہ ان کا کیس یہ ہے کہ فیصل واوڈا کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت دہری شہریت رکھتے تھے جبکہ شہریت ترک کرنے کی درخواست تو بعد میں 25 جون 2018 کو منظور ہوئی ۔اس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ جب بیان حلفی جمع کروایا گیا تو وہ امریکی شہری تھے
اس پر فیصل واوڈا کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس ڈاکومنٹ کے مصدقہ ہونے پر اعتراض ہے جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اسی لیے آپ کو بار بار نوٹس جاری کر رہے ہیں کہ جواب داخل کرائیں،کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم فیصل واوڈا کو نوٹس کر کے یہاں بلائیں آپ جواب میں لکھ دیتے کہ یہ ڈاکومنٹ جعلی ہے ، ہو سکتا ہے کہ پٹیشن کے ساتھ لگائے گئے ڈاکومنٹس جعلی ہوں، اسی لیے الیکشن کمیشن سے ریکارڈ منگوایا ہے ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج نے یہ بھی کہا کہ عدالت کے ساتھ چھپن چھپائی کا کھیل نہ کھیلا جائے، نہ الیکشن کمیشن میں پیش ہو رہے ہیں نہ عدالت میں، جس کے بعد جسٹس عامر فاروق نے سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔