وڈے چوہدری کی گنج پور واپسی۔۔
نکہ چوہدری اسٹیشن پر وقت سے پہلے پہنچ گیا تھا۔۔اسے وڈے کی بے صبری طبیعت معلوم تھی۔۔ وہ اگر اسے نہ پاتا تو دھاڑنا شروع کردیتا۔۔۔وڈے کی آج کئی سالوں بعد ولایت پور سے واپسی تھی۔ جو پہلوان کے ڈر سے پنڈ چھوڑ کر بھاگ گیا تھا۔۔ گجر اور دیگر چمچوں کڑچوں سمیت۔۔
نکہ اپنے جلا وطن بھائی کا دل جیتنے کے لیئے ۔ وڈے کی پرانی جیپ کو ایسے چمکا کر لایا تھا ، جیسے کھبی وہ حوالدار کے جوتوں کو چمکایا کرتا تھا۔۔
چوہدریوں نے کئی روز سے پنڈ کی گلیوں میں اپنے ڈھنڈورچیوں کے ذریعے یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ واپس آرہا ہے۔ گنج پور پر راج کرنے۔۔ یہ اعلان جب پہلوان کے کانوں تک پہنچایا گیا ۔۔ تو وہ معنی خیز انداز میں مُسکراکر شیرو کی طرف دیکھنے لگا۔۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ اس کاغذی شیر کے لیئے تو میرا یہ شیرو ہی کافی ہے۔۔
یار راجے۔۔ تمہیں یقین ہے ناں کہ پاجی آجائیں گے۔۔
گنج پور کے قدیم اسٹیشن کے چھوٹے سے پلیٹ فارم پر وڈے کے انتظار میں ٹہلتے ٹہلتے جب نکہ بیزار ہوگیا تو اپنے ساتھ آئے کارندے سے بے یقینی انداز میں پوچھا۔۔ اسی نے وڈے کے آنے کی خبر نکے تک پہنچائی تھی۔
ہاں چوری صاحب کیوں نہیں۔ آخر وہ کب تک پنڈ پر پہلوان کی زیاتیوں کے قصے سن کر برداشت کرتے رہتے۔۔ ان کے غیرت مند خون کو اُبال تو آنا ہی تھا۔راجے نے نکے کو جو الفاظ بولے اسے خود بھی اس پر یقین نہ تھا۔ مگر نکے کا دل تو رکھنا ہی تھا۔ ورنہ نکے کی جوتی ہوتی اور اس کی چمڑی۔
پوں پوں۔۔۔
یہ پوں پوں کی آواز نکے یا اسکے چمچے سے نہیں نکلی تھی بلکہ گاڑی کا احسان جتلانے والا ہارن تھا جو پلیٹ فارم سے لگنے سے پہلے بجارہی تھی۔
باوجی آگئے باوجی آگئے۔۔ ۔۔
گاڑی کا ہارن سنتے ہی نکے اور راجے نے خوشی سے چیخ لگادی۔۔اور گاڑی کے رکنے پر جب باوجی کو ناپایا تو نکہ راجے پر چلایا۔
باوجی کہاں ہیں ۔ کہاں ہیں باوجی۔
سرکار ۔۔مممم مجھے تو آج ہی انکے آنے کا کہا گیا تھا۔۔شاید مجھ سے سننے میں غلطی ہوگئی تھی۔۔
راجے بیچارے کو اطلاع ٹھیک دی گئی تھی ۔۔ مگر اسکی غلامانہ سوچ تھی یا نکے کی لاتوں اور تپڑوں کا اثر کہ وہ بات وڈے پر ڈالنے کی بجائے۔۔ الزام خود پر ڈالے جارہا تھا۔۔ ۔
کیا تم نے مزاق کیا تھا۔۔ پنڈ میں ڈھنڈورا کیوں پٹوایا ۔۔ چل اب تمہیں پیٹنے کی باری ہے۔۔
رک جائیں سرکار۔۔ رک جائیں۔۔ آہ آہ ۔۔ باوجی نے کہا ہے وہ آئیں گے مگر کچھ دن بعد انہوں نے خود ہی آنا ملتوی کیا ہے اس میں راجے کا قصور نہیں۔
راجے کی سٹیشن کے پلیٹ فارم پر دھلائی جاری تھی کہ۔۔ انکا پرانا کارندہ ہانپتے کانتے یہ خبر لایا۔۔جس پر نکہ راجے کو چھوڑ کر اسکی طرف ہوگیا۔۔
سونے تو کہاں غائب تھا۔۔ اور یہ خبر اب دے رہا ہے جب انتظار سے ہماری حالت غیر ہوگئی ۔۔
سونا جو سونا انگل کے نام سے مشہور تھا۔۔ بیچارہ وڈے کے ساتھ ہی فرار ہوگیا تھا۔۔ اور آج وڈے کی خبر لایا تو ساتھ میں دو لاتیں بھی کھائیں۔ ۔
چلو پھر۔۔ حویلی آجانا۔ ابھی اور بھی کام ہیں۔
سنگدل نکہ راجے اور سونے کی دھلائی کرکے جیپ کی طرف ایسے روانہ ہوا جیسے کوئی چادر کو جھاڑ کر بے پراوئی سے چل پڑتا ہے۔۔
جو حکم سرکار۔۔
راجے اور سونے نے یک آواز ہوکر جواب دیا۔۔ کیونکہ وہ نکے کی کمینی طبیعت سے واقف تھے۔۔
پوں پوں۔۔
کچھ ہی دیر میں نکے کی جیپ پھر سے پنڈ کے رستوں پر دھول اڑاتے ہوئ رواں دواں تھی اور پیچھے سے گاڑی کی آواز اسکا پیچھا کر رہی تھی۔۔ جیسے کہہ رہی ہو کہ نہ امید نہ ہو۔۔ پھر آنا۔۔ وہ ائے گا۔۔ چاہے مرضی سے ہو یا ۔۔ٓ