چیف جسٹس کی تقریر امید کی کرن ہے : سابق جج شوکت عزیز

nisar-jj.jpg


سابق جج شوکت عزیز نے چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی عدلیہ سے متعلق تقریر کو امید کی کرن قرار دے دیا، ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی دو صفحات پر مشتمل درخواست میں سابق جج نے کہا کہ چیف جسٹس کے حالیہ خطاب نے ان کے لیے امید کی کرن ہیدا کردی کہ ان کے خلاف برطرفی کی اپیل میں دوسرے عوامل مزید متعلقہ نہیں رہیں گے جو اکتوبر 2018 سے زیر التوا ہے۔

اپنی درخواست میں سابق جج نے کہا کہ برطرفی کے خلاف ان کی اپیل اب عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس میں تبدیل ہوگئی،سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے اور 11 اکتوبر 2018 کے نوٹی فکیشن کے خلاف ان کی اپیل جس کے تحت انہیں ہٹایا گیا تھا اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

ان کا حلف نامہ، جو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی سماعت کے دوران ان کے وکیل حامد خان نے پڑھ کر سنایا، عدالتی دفتر نے واپس کر دیا،حلف نامے میں سابق جج کی سینئر انٹیلی جنس افسران کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

وفاقی حکومت نے 10 جون کو آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں ان کے دعووں کو گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے حلف نامے کی تردید کردی تھی۔

21 جولائی 2018 کو راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں اپنی تقریر میں شوکت عزیز صدیقی نے ،ریاستی اداروں، خاص طور پر آئی ایس آئی پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بنچوں کی تشکیل میں مداخلت کا الزام لگایا تھا۔

سابق جج کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست ان درخواستوں کے سلسلے کی کڑی ہے جس میں انہوں نے اپنے کیس کی جلد سماعت کا متعدد مرتبہ مطالبہ کیا،سپریم کورٹ کے 1980 کے رولز کے رول 6 کے تحت دائر تازہ درخواست میں یاد دلایا گیا کہ رواں سال 11 جون کو پانچ ججوں کی بینچ نے مشاہدہ کیا تھا کہ اس مہینے کے اختتام سے پہلے بینچ کی دستیابی پر معاملہ دوبارہ درج کیا جائے لیکن ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

شوکت صدیقی نے بتایا کہ ان کی جانب سے جلد سماعت کے لیے متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں جب کہ انھوں نے 5 اگست کو ایک مراسلہ بھی لکھا تھا جس میں عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ اس معاملے میں طویل التوا انہیں اور ان کے اہل خانہ کے لیے مشکلات بڑھا دے گا۔

سپریم کورٹ کے دفتر نے سماعت کے لیے 3 مختلف تاریخیں تجویز کیں 12 اکتوبر، 3 نومبر اور 25 نومبر لیکن تینوں مواقع پر ’کچھ نامعلوم وجوہات‘ کی بنا پر مجوزہ تاریخوں سے کچھ دن پہلے ہی سماعت منسوخ کر دی گئی،درخواست میں کہا گیا کہ یہ مسئلہ عوامی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اپیل میں عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے حوالے سے اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔

سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بھی چیف جسٹس کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا کہ کسی بھی ریاستی ادارے نے اپنی مرضی کے فیصلے دینے کے لیے عدلیہ پر دباؤ ڈالا تھا،شوکت عزیز صدیقی کو تین سال قبل آئی ایس آئی کے افسران کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے پر برطرف کردیا گیا تھا۔

 

Terminator;

Minister (2k+ posts)
بھڑوا لیگ کے خریدے ہوئے سلطان راہی کی
حاضر سروس ججز کے جوتوں پر ناک رگڑنے کا عملی مظاہرہ

سالا حرامی ھیرو بنتا تھا ۔ ۔ ۔
??