US State Department
Banned
Fawad Digital Outreach Team US State Department
ميں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب بھی امريکی صدر، سينير امريکی ملٹری افسر، اہم سفارتی اہلکار يا عہديدار کی پاکستان کے کسی اہم اہلکار سے ملاقات يا کوئ بيان سامنے آتا ہے تو بعض تجزيہ نگار اسے پاکستان پر دباؤ بڑھانے يا دھمکی سے ہی کيوں تعبير کرتے ہيں؟
يہ کوئ ڈھکی چپھی بات نہيں ہے کہ امريکہ اور پاکستان دہشت گردی کے خلاف باہم اتحادی ہيں۔ انکی باہمی تعاون اور وسائل کا اشتراک اس حکمت عملی کا حصہ ہےجس کا مقصد افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں کے دونوں طرف موجود اس مشترکہ دشمن کا خاتمہ ہے جو دنيا بھر ميں بے گناہ افراد کو بے دريخ قتل کرنے کا خواہ ہے۔
جہاں تک سيکرٹری کلنٹن کے بيان کا تعلق ہے تو يہ واضح رہے کہ وہ ايک مفروضے کی بنياد پر ايک ممکنہ صورت حال کے مخصوص تناظر ميں کيے گۓ سوال کا جواب دے رہی تھيں۔ يقينی طور پر امريکہ کے خلاف دہشت گردی کی صورت ميں امريکی حکومت کی جانب سے ردعمل آۓ گا۔ اس وقت بھی امريکہ حکومت پاکستان سے نيويارک ميں پيش آنے والے واقعے کے حوالے سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔
دنيا کا کوئ بھی ملک يا حکومت يہ موقف اختيار نہيں کر سکتی کہ دہشت گردی کے حملے کی صورت ميں کوئ کاروائ نہيں کی جاۓ گي اور اس ملک کے شہريوں کو درپيش خطرات کو نظرانداز کر ديا جاۓ گا۔ کسی بھی ملک کی طرح امريکی حکومت کے اہم سفارتی عہديدار کو بھی يہ حق حاصل ہے کہ وہ يہ واضح کرے کہ دہشت گردی کی کسی کامياب کوشش کے واقعے کو سنجيدگی سے ليا جاۓ گا اور اس پر شديد ردعمل کا اظہار کيا جاۓ گا۔ اس ضمن ميں ہميشہ کی طرح ہم دنيا بھر ميں اپنے پارٹنرز سے تعاون چاہيں گے تا کہ نا صرف اس واقعے کے حوالے سے بلکہ دیگر موجود خطرات کا بھی سدباب کيا جا سکے۔
امريکی حکومت نے يہ بھی واضح کيا ہے کہ اس خطے کے اندر دہشت گردی کے حوالے سے سب سے زيادہ نقصان پاکستان نے اٹھايا ہے۔ يہ ايک مشترکہ دشمن کی جانب سے ايسا خطرہ ہے جو سب کے ليے يکساں ہے۔
سيکرٹری کلنٹن نے حکومت پاکستان يا پاکستان کی عوام کو مورد الزام نہيں ٹھہرايا۔ بلکہ انھوں نے يہ واضح کيا کہ دہشت گردی کے جس خطرے کا ہميں سامنا ہے، پاکستان اس کے خلاف موثر اقدامات کر رہا ہے۔ اس ضمن ميں انھوں نے سوات اور وزيرستان ميں جاری آپريشنز کی مثال بھی دی۔
فواد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov