usmanjee786
MPA (400+ posts)
سورہ الاعراف میں ارشاد ہے۔
اور کتنی ایسی بستیاں تھیں، جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا۔ تب آیا ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران یا دوپہر کے وقت جب وہ آرام کر رہے تھے۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب آ گیا تو ان کا کہنا یہی تھا کہ ہم خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ (آیات 4,5)
آگے فرمایا۔
کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران آ جائے اور وہ سوئے پڑے ہوں؟ کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب چاشت کے وقت آ جائے اور وہ کھیل میںلگے ہوں؟ (آیات 97,97)
عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دشمن بستیاں ویران کر دے۔ عزت و آبرو برباد کر دے۔ قوم کو اپنا غلام بنا لے۔
محافظان پاکستان کی غفلت کا تو یہ حال ہے کہ پاکستان پر بھارتی حملہ ہو جانے کے بعد بھی ان کی غفلت کے پردے دور نہیں ہوں گے۔ وہ یہی سمجھیں گے کہ ان کی آنکھیں صحیح نہیں دیکھ رہیں۔یہ وقت قوم کا عزم مستحکم کرنے اور اسکے اندر جوش و ولولہ پیدا کرنے کا ہے۔ قوم کو موسیقی کی محفلوں اور کھیل تماشوں میں لگائے رکھنے کا نہیں۔ نہ یہ وقت سیمیناروں میں ایسی تقاریر کرانے کا ہے کہ آیا بھارت سے پاکستان کی دوستی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ یا پاک بھارت تعلقات کیوں خراب ہیں؟ وغیرہ وغیرہ اس سے قوم میں ذہنی انتشار پھیلے گا اس وقت تو قوم کو دوٹوک الفاظ میں بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمیں اپنی بقاءکے لئے پوری طرح کمر بستہ ہو جانا چاہئے۔
بہ ضرب تیشہ بشکن بے ستوں را
کہ فرصت اندک وگردوں دو رنگ راست
حکیماں را دریں اندیشہ بگزار
شرر ازتیشہ خیزو یا زسنگ است
ترجمہ: تیشہ کی ضرب سے پہاڑ کو توڑ دے، کیونکہ فرصت کا وقت تھوڑا ہے اور حالات ایک جیسے نہیں رہتے ۔ ایسی موشگافیاں فلسفیوں پر چھوڑ کر شرارہ تیشے سے نکلتا ہے یا پتھر سے۔
اس وقت پاکستان کو کسی زبردست صاحب عمل شخصیت کی ضرورت ہے جو قوم کو احساس زیاں دے کر اس کا لہو گرما دے اور اپنی خداداد صلاحیت سے ملک کو موجودہ بحران سے نکال کر نئی سربلندیوں سے ہمکنار کردے۔ملک کو غداروں، تخریب کاروں اور دشمن کے ایجنٹوں اور جاسوسوں سے پاک کرنا اپنی صفوں کو مستحکم کرنے ہی کا حصہ ہے بلکہ یہ کام پہلے سرانجام پانا چاہئے۔
اور کتنی ایسی بستیاں تھیں، جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا۔ تب آیا ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران یا دوپہر کے وقت جب وہ آرام کر رہے تھے۔ پھر جب ان پر ہمارا عذاب آ گیا تو ان کا کہنا یہی تھا کہ ہم خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ (آیات 4,5)
آگے فرمایا۔
کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے دوران آ جائے اور وہ سوئے پڑے ہوں؟ کیا ان بستیوں کے لوگ اس بات سے مامون ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب چاشت کے وقت آ جائے اور وہ کھیل میںلگے ہوں؟ (آیات 97,97)
عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ دشمن بستیاں ویران کر دے۔ عزت و آبرو برباد کر دے۔ قوم کو اپنا غلام بنا لے۔
محافظان پاکستان کی غفلت کا تو یہ حال ہے کہ پاکستان پر بھارتی حملہ ہو جانے کے بعد بھی ان کی غفلت کے پردے دور نہیں ہوں گے۔ وہ یہی سمجھیں گے کہ ان کی آنکھیں صحیح نہیں دیکھ رہیں۔یہ وقت قوم کا عزم مستحکم کرنے اور اسکے اندر جوش و ولولہ پیدا کرنے کا ہے۔ قوم کو موسیقی کی محفلوں اور کھیل تماشوں میں لگائے رکھنے کا نہیں۔ نہ یہ وقت سیمیناروں میں ایسی تقاریر کرانے کا ہے کہ آیا بھارت سے پاکستان کی دوستی ہو سکتی ہے یا نہیں۔ یا پاک بھارت تعلقات کیوں خراب ہیں؟ وغیرہ وغیرہ اس سے قوم میں ذہنی انتشار پھیلے گا اس وقت تو قوم کو دوٹوک الفاظ میں بتانے کی ضرورت ہے کہ ہم زندگی اور موت کے دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہمیں اپنی بقاءکے لئے پوری طرح کمر بستہ ہو جانا چاہئے۔
بہ ضرب تیشہ بشکن بے ستوں را
کہ فرصت اندک وگردوں دو رنگ راست
حکیماں را دریں اندیشہ بگزار
شرر ازتیشہ خیزو یا زسنگ است
ترجمہ: تیشہ کی ضرب سے پہاڑ کو توڑ دے، کیونکہ فرصت کا وقت تھوڑا ہے اور حالات ایک جیسے نہیں رہتے ۔ ایسی موشگافیاں فلسفیوں پر چھوڑ کر شرارہ تیشے سے نکلتا ہے یا پتھر سے۔
اس وقت پاکستان کو کسی زبردست صاحب عمل شخصیت کی ضرورت ہے جو قوم کو احساس زیاں دے کر اس کا لہو گرما دے اور اپنی خداداد صلاحیت سے ملک کو موجودہ بحران سے نکال کر نئی سربلندیوں سے ہمکنار کردے۔ملک کو غداروں، تخریب کاروں اور دشمن کے ایجنٹوں اور جاسوسوں سے پاک کرنا اپنی صفوں کو مستحکم کرنے ہی کا حصہ ہے بلکہ یہ کام پہلے سرانجام پانا چاہئے۔