ALI ARYAN
Senator (1k+ posts)
kiya sab muhajer krachi maien hi abad hoy thay ,agher nahi tu pher siraf krachi kay log hi khud ko mohajer kahlwa kay black mail kiyon kar rahy haien .or jo baqi thay woh ab tak khud ko muhajer kiyon nahi kahalwatay ya sochanay ki bat hay jab dosay sobon maien rahnay walay ,wahan rach bas gay us mahol maien tu pher krachi kay log sindh maien ja kay sindhi kiyon nahi ho gay woh muhajer kiyon ban gay ya ???????????????? chand logo nay apnay mufad ki khater un pay (muhajer ka tag ) kiyon laga diya jo na yahan kay lagtay haien na wahan kay un ka kiya qasur hay .un kay abao ajdad tu es pakistan kay liya apni jarien chor kay kat kay ay thay tu pher ya muhajer kiyon hoy .kisi kay pass es bat ka jawab hay tu batay???????????????:(:(:(:(:(:(:(:(:(
مہاجر صرف سندھ میں نہیں بلکے پاکستان کے ہر صوبے میں آباد ہوے . اور جہاں تک بات ہی آپ کی کے وہ لوگ کیوں اپنے آپ کو مہاجر کہلوانا پسند نہیں کرتے اور کراچی اور سند میں آباد لوگ خود کو اب تک کیوں مہاجر کہلواتے ہیں. تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کے جب تک ایوب خان نے حکومت نہیں سمبھالی تھی تب تک پاکستان میں ایسا کوئی اقدام نہیں ہوا تھا کے جس سے مہاجرین کو احساس بیگانگی محسوس ہوتا. تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے
عزیز دوست،
١) اٹھاون کے مارشل لا کے بعد ایوب خان کے آمرانہ دور میں پہلی بار ان مہاجرین کو چن چن کر سرکاری اڈوں سے علیحدہ کیا گیا . دارلحکومت یکدم کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا . اور مہاجرین کی بری تعداد جو کے مخالف قسم کے وفاقی سرکاری اداروں سے منسلک تھی انکو یہاں چور دیا گیا.
٢) محترمہ فاطمه جناح صاحبہ کے الیکشن کے وقت کراچی اور مشرقی پاکستان کے عوام نے کھل کر آمرانہ دور کی مخالفت کرتے ہوے ایوب خان کے اقتدار کو للکارا جس کا انجام دونوں علاقوں کے عوام کو مختلف اوقات میں بھگتنا پڑا کراچی کے عوام پر الیکشن کے فوری بعد آج کا گوہر ایوب آرمی کے جوانوں اور پختون لوگوں کے ساتھ حملہ اور ہوا اور لیاقت آباد میں پاکستان کی پہلی خون کی ہولی کھلی گئے مہاجرین کے خون سے لا تعداد لوگوں لوگوں آرمی کی بکتر بند گاڑیوں سے فرنگ کر کے ہلاک کیا گیا (یہ تھی پاکستان کی پہلی ٹارگٹ کلنگ)ااور مشرقی پاکستان کی عوام کے ساتھ جو کیا گیا وہ آج بنگلادیش کے نام کے ساتھ موجودہ پاکستان کی اس اشرفیہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ان بنگالی مسلمنوں کو بھی مگربی پاکستان سے اسی طرح بھوکے اور ننگے کے لفظوں سے یاد کیا جاتا تھا.
٣) امید تو یہ تھی کے سقوط مشرقی پاکستان کے بعد شاید اس اشرفیہ جس کو عرف عام میں اسٹبلشمنٹ کا نام دیا جاتا ہے نے عقل کے ناخن لے لئے ہونگے. پر سانحہ مشرقی پاکستان کے صرف ایک سال بعد ہی ذولفقار علی بھٹو نے سول مارشل لا ادمینستراٹور کی حیثیت سے صرف صوبہ سند کی سطح پر سرکاری ملازمتوں میں کوٹا سسٹم متعارف کروا کا سندھ کے دیہی اور شہری آبادی کے درمیان تفریق کی ایسی لکیر کھینچی جس سے آج تک خون رس رہا ہے. اپنی دانست میں بھٹو اپنی قوم کا بھلا کر گیا لیکن اس وقت جب یہ کوٹا سسٹم نافذ ہوا تو مہجرین کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آ گی.
دوست یہ اک داستان ہے جس میں اور بہت سے ایسے نکات شامل کے جا سکتے ہیں لیکن میری نظر میں اپر بیان کے گئے نکات ہی کی وجہ سے کراچی اور حیدرآباد میں آباد مہاجرین نے اپنے آپ کو بحالت پوکڑے جانے مختلف ناموں میں سے ایک نام جو آقا نامدار محمد صلی وسلم کی سنّت کے مطابق تھا چن لیا اور اس تحریک کا آغاز کیا جو کے آج متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے پہچانی جاتی ہےاور آج اس جماعت میں پاکستان بھر سے لوگ جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں.
اپر بیان کیا گئے نکات میں سے ایسا کوئی بھی واقعہ دیگر صوبوں میں آباد مہاجرین کے ساتھ واقع ہوا اور وہ دھیرے دھیرے اس معاشرے میں زم ہو گئے.
لیکن سندھ میں بدقسمتی سے ہر عشرے میں ایسا کوئی نہ کوئی سانحہ برپا کیا گیا جس سے سند میں آباد مہاجرین کو خود کو اجنبی سمجھنے لگے. اور پھر اجنبیت کے خاتمے کے لئے یہ مہاجر کی اسنخت سامنے آئ.
ویسے کبھی سوچا ہے کے مہاجر کہنے اور کہلوانے پر تو ہمیشہ سے سخت اعتراضات کے جاتے ہیں اور فورا صلاح دی جاتی ہے کے سب پاکستانی ہیں.. لیکن کبھی پبنجابی، سندھ یبلوچی، پشتون، مکرانی بروہی، سرائیکی، گلگتی، ہزارہ بلتی اور چترالی کہنے پر یا جماعت بنانے پر کبھی کوئی اعتراض سامنے نہیں آتا ؟
کیا یہ کھلی منافقت مہیں ہے؟
تمام انبیاء الٰہی مخصوصاً پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی ”نسلی “ یا ”قومی“ امتیاز کو قبول نہیں کیا۔ ان کی نظر میں دنیا کے تمام انسان برابرتھے چاہے وہ کسی بھی نسل ،قوم یا زبان سے تعلق رکھتے ہوں۔ قرآن کریم تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتاہے کہ یاای ه االناس انا خلقناکم من ذکر وانثی ٰ وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند الله اتقاکم یعنی اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ،پھر ہم نے تم کو قبیلوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو (لیکن یہ برتری کا پیمانہ نہیں ہے) تم میں الله کے نزدیک وہ محترم ہے جو تقوے میں زیادہ ہے۔
اس لئے دوست یہ نام جو صرف اور صرف شناخت کے لئے اختیار کیا گیا ہے اس پر اعتراض کرنے سے کچھ حاصل و مقصود نہیں ہو گا . اور اگر ہم سب لوگوں مندرجہ ذیل بات پر عمل کر لیں تو پاکستان میں کسی قسم کا کوئی لسانی مسلہ نہیں ہے.
پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ایک بہت مشہور حدیث ہے جو آپ نے حج کے دوران سرزمین منیٰ میں اونٹ پر سوار ہوکر لوگوں سے خطاب فرمائی تھی ” یا ایها الناس الا ان ربکم واحد وان اباکم واحد ،الا لافضل لعربی علی عجمی ،ولا لعجمی علی ٰ عربی، ولا لاسود علی ٰ احمر،ولا لاحمر علی ٰ اسود،الابالتقوی ٰ ،الا هل بلغت ؟! قالوا نعم! قال لیبلغ الشاہد الغائب“ یعنی اے لوگو! جان لو کہ تمھارا خدا ایک ہے اور تمھارے ماں باپ بھی ایک ہیں،نہ عربوں کو عجمیوں پربرتری حاصل ہے نہ عجمیوں کو عربوں پر،نہ گوروں کو کالوں پر فوقیت ہے اورنہ کالوں کو گوروں پر،اگر کسی کو کسی پر برتری ہے تو وہ تقویٰ کی بنا پر ہے ۔ پھر آپ نے سوال کیا کہ کیا میں نے الله کے حکم کو پہونچا دیا ہے؟ سب نے جواب دیا جی ہاں! آپ نے الله کے حکم کو پہونچادیا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جو لوگ یہاں پرموجودہیں وہ اس بات کو ان لوگوں تک بھی پہونچا دیں جو یہاں پر موجود نہیں ہیں۔