پاکستان کے سیاستدانوں نے ہمیشہ اپنی سیاست کیلئے امریکہ مخالف نعرے لگائے، ٹیبل کے نیچے سے امریکہ سے امداد لیتے رہے اور اوپر اوپر سے امریکہ کے خلاف بڑھکیں لگاتے رہے۔ کسی بھی شخص کے قول کو جانچنے کا سب سے مستند پیمانہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ آیا کہ اس کا فعل بھی قول سے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے امریکہ کے خلاف خوب بڑھکیں مارتے تھے اور عافیہ صدیقی کو رہا کرانے کی باتیں بھی کرتے تھے۔ آج عمران خان وزیراعظم ہیں اور اب بھی ان کے بارے میں ان کے چمچے کڑچھے کچھ ایسا تاثر دیتے ہیں جیسے کہ وہ امریکہ سے بالکل نہیں ڈرتے اور تمام مصلحتیں بالائے طاق رکھتے ہوئے امریکہ کو للکارتے ہیں۔
اس کا ایک مظاہرہ تو ہم نے حال ہی میں دیکھ لیا جب امریکی فوجی وردیاں پہنے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر وارد ہوئے اور ابھی تک وہ اسلام آباد کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں، اور یہی عمرانی حکومت ان کی بھرپور طریقے سے خدمت کررہی ہے، ان کے جوتے بھی پالش کئے جارہے ہیں، انکی وردیاں دھو کر وقت پر استری کردی جاتی ہیں اور بہترین کھانا دیا جاتا ہے۔ دوسرا مظاہرہ عافیہ صدیقی کے معاملے میں دیکھ لیں۔ جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں تب سے انہوں نے ایک بار بھی عافیہ صدیقی کا نام نہیں لیا۔ یہاں تک کہ افغانستان کے معاملے میں جب پاکستان کے پاس بارگیننگ پوزیشن موجود تھی تب بھی عمران خان نے عافیہ صدیقی کا نام نہیں لیا۔
وزیراعظم عمران خان جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے گئے تو وہاں ایک پاکستانی صحافی طیبہ ضیاء نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے متعلق سوال پوچھ لیا، اس پر ہمارے بہادر لیڈر کی جو حالت ہوئی اور گلے سے جو گھٹی گھٹی تھوڑی سی آواز نکلی وہ نیچے دی گئی ویڈیو میں دیکھی جاسکتی ہے۔۔ میں عافیہ صدیقی کا حامی نہیں، نہ ہی میں ذاتی طور پر اس کی رہائی کے حق میں ہوں۔ میں صرف عمران خان کو آئینہ دکھانا چاہتا ہوں کہ جب آپ اپنی جھوٹی سیاست کیلئے جھوٹے نعرے لگاتے ہیں اور عوام کو لایعنی معاملات کے پیچھے لگادیتے ہیں وہی معاملات اقتدار میں آنے کے بعد جب آپ کے سامنے اٹھائے جاتے ہیں تب آپ اس سے بھاگتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنی گھٹیا سیاست کیلئے لوگوں کے ساتھ جھوٹ بولنے سے گریز کیا جائے۔ یا پھر ڈٹ جائیں اور ہمت دکھائیں اور امریکہ سے مطالبہ کریں کہ عافیہ صدیقی کو رہا کرے۔۔ ہے آپ میں اتنی ہمت۔۔۔؟
اس کا ایک مظاہرہ تو ہم نے حال ہی میں دیکھ لیا جب امریکی فوجی وردیاں پہنے ہوئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر وارد ہوئے اور ابھی تک وہ اسلام آباد کے ہوٹلوں میں مقیم ہیں، اور یہی عمرانی حکومت ان کی بھرپور طریقے سے خدمت کررہی ہے، ان کے جوتے بھی پالش کئے جارہے ہیں، انکی وردیاں دھو کر وقت پر استری کردی جاتی ہیں اور بہترین کھانا دیا جاتا ہے۔ دوسرا مظاہرہ عافیہ صدیقی کے معاملے میں دیکھ لیں۔ جب سے عمران خان وزیراعظم بنے ہیں تب سے انہوں نے ایک بار بھی عافیہ صدیقی کا نام نہیں لیا۔ یہاں تک کہ افغانستان کے معاملے میں جب پاکستان کے پاس بارگیننگ پوزیشن موجود تھی تب بھی عمران خان نے عافیہ صدیقی کا نام نہیں لیا۔
وزیراعظم عمران خان جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے گئے تو وہاں ایک پاکستانی صحافی طیبہ ضیاء نے عافیہ صدیقی کی رہائی کے متعلق سوال پوچھ لیا، اس پر ہمارے بہادر لیڈر کی جو حالت ہوئی اور گلے سے جو گھٹی گھٹی تھوڑی سی آواز نکلی وہ نیچے دی گئی ویڈیو میں دیکھی جاسکتی ہے۔۔ میں عافیہ صدیقی کا حامی نہیں، نہ ہی میں ذاتی طور پر اس کی رہائی کے حق میں ہوں۔ میں صرف عمران خان کو آئینہ دکھانا چاہتا ہوں کہ جب آپ اپنی جھوٹی سیاست کیلئے جھوٹے نعرے لگاتے ہیں اور عوام کو لایعنی معاملات کے پیچھے لگادیتے ہیں وہی معاملات اقتدار میں آنے کے بعد جب آپ کے سامنے اٹھائے جاتے ہیں تب آپ اس سے بھاگتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ اپنی گھٹیا سیاست کیلئے لوگوں کے ساتھ جھوٹ بولنے سے گریز کیا جائے۔ یا پھر ڈٹ جائیں اور ہمت دکھائیں اور امریکہ سے مطالبہ کریں کہ عافیہ صدیقی کو رہا کرے۔۔ ہے آپ میں اتنی ہمت۔۔۔؟