3۔ مرزاصاحب کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ
مرزا بشیر احمد اپنے والد مرزا غلام احمد قادیانی کے دماغی خلل کا ایک اور واقعہ بیان کرتاہے جو کسی لطیفے سے کم نہیں:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ حضرت صاحب سناتے کہ جب میں بچہ ہوتا تھا تو ایک دفعہ بعض بچوں نے مجھے کہا کہ جاؤ گھر سے میٹھا لاؤ۔ میں گھر آیا اور بغیر کسی سے پوچھنے کے ایک برتن میں سے سفید بورا اپنی جیبوں میں بھر کر باہر لے گیا اور راستہ میں ایک مٹھی بھر کرمنہ میں ڈال لی۔ بس پھر کیا تھا؟ میرا دم رک گیا اور بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ معلوم ہوا کہ جسے میں نے سفید بورا سمجھ کر جیبوں میں بھرا تھا وہ بورا نہ تھا بلکہ پسا ہوا نمک تھا۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرت المہدی، 1: 244
اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب کو چوری کی عادت بچپن سے ہی تھی جو بڑھتے بڑھتے ختمِ نبوت کی عمارت میں نقب زنی پرمنتج ہوئی۔
4۔ شعبدہ بازی اور کیمیا گری کا شوق
1۔ ’’لالہ بھین سین وکیل سیالکوٹ کا بیان ہے کہ جب میں اور مرزا غلام احمد بٹالہ میں پڑھا کرتے تھے تو ان کی عادت تھی کہ مٹی کا ایک لوٹا (سبلوچہ گلی) پانی سے بھرواتے اور دو لڑکوں سے کہتے کہ اسے ہاتھ میں ایک ایک انگلی سے اٹھائے رہو۔ لڑکے انگلیوں کے سہارے لوٹے کو تھام لیتے اس کے بعد مرزا صاحب کیمیا کے نسخوں کی دوائیں جدا کاغذ کے پرزوں پر لکھ کر گولیاں بناتے اور ایک ایک گولی اس لوٹے میں ڈالتے جاتے اور ساتھ ہی کوئی اسم پڑھتے جاتے تھے، جس گولی کی نوبت پر لوٹا گھوم جاتا تھا، اس گولی کا نسخہ پڑھ کر علیحدہ رکھ لیتے تھے اور پھر اس نسخہ کا تجربہ کرتے تھے لیکن کیمیا گری میں کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔‘‘
چودھویں صدی کا مسیح: 11، مطبوعہ امرتسر، 1324ھ
2۔ ’’مولوی محمد حسین بٹالوی اور مرزا قادیانی بٹالہ میں ہم سبق تھے، ایک مرتبہ مولوی محمد حسین، مرزا قادیانی اور چند لڑکے رات کے وقت قصبہ بٹالہ سے باہر کھیتوں میں قضائے حاجت کے لیے گئے۔ گرمی کا موسم تھا، جگنو اڑ رہے تھے۔ رفع حاجت کے وقت ایک جگنو مرزا قادیانی کے گریبان میں آگیا۔ مرزا صاحب نے اسے ہاتھ میں دبا لیا۔ جب سب لڑکے جمع ہوئے تو مرزا قادیانی نے ہم جولیوں سے کہا: دیکھو میرے پیرہن کے نیچے درخشاں چیز کیا ہے؟ اور کہا اگر اسی طرح کوئی شعبدہ کیا جائے تو لوگوں کو پھانسا جا سکتا ہے یا نہیں؟‘‘
مولانا ابو القاسم رفیع دلاروی، رئیس قادیان: 16
اوائلِ جوانی اور آوارگی
مرزا صاحب کی جوانی کا اوائل دور بھی کسی عام نوجوان سے کم نہیں۔ موصوف نے عمر کے اس سنہری دور میں خوب مزے کیے۔ درج ذیل واقعہ جس کی راویہ مرزا صاحب کی اپنی اہلیہ اور ناقل صاحبزادے ہیں اس بات کا واضح ثبوت ہے:
’’بیان کیا مجھ سے والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں حضرت مسیح موعود تمہارے دادا کی پنشن مبلغ 700 روپے وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین چلاگیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو آپ کو بھلا پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور جگہ چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے گھر واپس نہیں آئے۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 34، 35
آج سے قریبا سوا سو سال قبل 700 روپیہ ایک خطیر رقم تھی۔ اتنی رقم کو کہاں اڑا کر ختم کر دیا؟ اس کا جواب سوائے ’’آوارگی‘‘ کے اور کیا ہو سکتا ہے؟
ابتدائی تعلیم
یہ ایک مسلمہ حقیقت اور طے شدہ امر ہے کہ نبی کا اس دنیا میں کوئی استاد نہیں ہوتا، بلکہ وہ براہ راست اللہ رب العزت سے فیض حاصل کرتا ہے۔ نبی کی تعلیم و تربیت کا انتظام و انصرام اللہ پاک خود فرماتا ہے، انبیاء کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے دنیوی مکتب میں استاد کے آگے زانوئے تلمذ طے نہیں کئے، نبوت کی یہ ایک ایسی تسلیم شدہ علامت ہے کہ مرزا قادیانی کو بھی یہ ڈھونگ رچانے کے لیے کہ اس کا کوئی استاد نہیں یہ مضحکہ خیز اعلان کرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اسے ثابت نہیں کر سکا بلکہ اس بات میں اپنے جھوٹے ہونے کی ایک اور شہادت رقم کر گیا۔ مرزا صاحب اپنے بارے میں رقمطراز ہیں:
’’سو آنے والے کا نام جو مہدی رکھا گیا، سو اس میںیہ اشارہ ہے کہ وہ آنے والا علم دین خدا سے ہی حاصل کرے گا اور قرآن و حدیث میں کسی استاد کا شاگرد نہیں ہو گا۔ سو میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ میرا حال یہی ہے۔ کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ میں نے کسی انسان سے قرآن یا حدیث یا تفسیر کا ایک سبق بھی پڑھا ہے یا کسی مفسر یا محدث کی شاگردی اختیار کی ہے پس یہی مہدویت ہے جو نبوت محمدیہ کے منہاج پر مجھے حاصل ہوئی ہے اور اسرار دین بلاواسطہ میرے پر کھولے گئے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، ایام الصلح: 147؛ مندرجہ روحانی خزائن، 14: 394
اس دعویٰ کی تکذیب مرزا صاحب کی اپنی خود نوشت سے ہوتی ہے جو درج ذیل ہے:
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا تو ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا، جنہوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کانام فضل الٰہی تھا اورجب میری عمر تقریباً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔ میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ میری تعلیم خدا تعالیٰ کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام کا پہلا لفظ بھی فضل ہی تھا۔ مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار ااور بزرگ وار آدمی تھے۔ وہ بہت توجہ اور محنت سے پڑھاتے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں پڑھیںاور کچھ قواعدِنحو ان سے پڑھے اور بعد اس کے جب میں سترہ یااٹھارہ سال کا ہوا تو ایک مولوی صاحب سے چند سال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گل علی شاہ تھا۔ ان کو بھی میرے والدصاحب نے نوکررکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقررکیا تھا اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وٖغیرہ کے علومِ مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 161؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 179-181
طب کا علم انہوں نے اپنے والد صاحب سے پڑھا جو ایک مجرب و حاذق طبیب تھے۔
’’اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ فن طبابت میں بڑے حاذق طبیب تھے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181
انہیں اپنے زمانہ طالب علمی میں کتابوں سے گہرا شغف تھا وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’اور ان دنوں مجھے کتابوں کے دیکھنے کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ گویا میں دنیا میںنہ تھا۔ میرے والد صاحب مجھے بار بار یہی ہدایت کرتے تھے کہ کتابوں کا مطالعہ کم کرنا چاہیے کیونکہ وہ نہایت ہمدردی سے ڈرتے تھے کہ صحت میں فرق نہ آوے۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 163؛ روحانی خزائن، 13: 181
لیکن ان کو اپنے والد کے اصرار پر تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے اپنی آبائی زمینوں کے حصول کے لیے تگ و دو اور عدالتی کارروائیوں میں مصروف ہونا پڑا جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
’’میرے والد صاحب اپنے بعض آباؤ و اجداد کے دیہات کو دوبارہ لینے کے لیے انگریزی عدالتوں میں مقدمات کر رہے تھے۔ انہوں نے انہی مقدمات میں مجھے بھی لگایا اور ایک زمانہ دراز تک میں ان کاموں میں مشغول رہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بہت سا وقت عزیز میرا ان بیہودہ جھگڑوں میں ضائع گیا اوراس کے ساتھ ہی والد صاحب موصوف نے زمینداری امور کی نگرانی میں مجھے لگا دیا۔ میں اس طبیعت اور فطرت کا آدمی نہیں تھا اس لیے اکثر والد صاحب کی ناراضگی کا نشانہ رہتا تھا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، کتاب البریہ، حاشیہ: 164؛ مندرجہ روحانی خزائن، 13: 182
مرزا قادیانی کا جھوٹ
مرزا قادیانی کا یہ کہنا کہ میرا کوئی استاد نہیں، ایسا جھوٹ ہے جو تاویلات کے ہزار پردوں میں بھی چھپائے نہیں چھپتا۔ اب جھوٹے کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے یہ بھی مرزا صاحب خود ہی بتائیں گے۔
جھوٹے کے بارے میں مرزا صاحب کے اپنے اَقوال
جھوٹے کے بارے میں مرزا صاحب کے چنداپنے اقوال درج ذیل ہیں:
1۔ ’’ظاہر ہے جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
غلام احمد قادیانی، چشمہ معرفت: 222؛ مندرجہ روحانی خزائن، 23: 231
2۔ ’’اور محض ہنسی کے طور پر یا لوگوں کو اپنا رسوخ جتانے کے لیے دعویٰ کرتا ہے کہ مجھے یہ خواب آئی اور یا الہام ہوا اورجھوٹ بولتا ہے یا اس میں جھوٹ ملاتا ہے وہ اس نجاست کے کیڑے کی طرح ہے جو نجاست میں ہی پیدا ہوتا ہے اور نجاست میں ہی مر جاتا ہے۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ: 20؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56
3۔ ’’جھوٹ بولنا مرتد ہونے سے کم نہیں۔‘‘
مرزا غلام احمد قادیانی، تحفہ گولڑویہ، حاشیہ: 20؛ مندرجہ روحانی خزائن، 17: 56
پہلی شادی
مرزا صاحب کی عمر پندرہ سال تھی اور وہ ابھی زمانہ طالب علمی میں تھے کہ ان کی شادی اپنے ماموں مرزا جمعیت بیگ کی بیٹی، مرزا شیر علی ہوشیار پوری کی ہمشیرہ سے کر دی گئی۔ مرزا صاحب کی اس بیوی سے دو لڑکے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد پیدا ہوئے۔
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 2: 150
مرزا قادیانی کے سوانح نگار ڈاکٹر بشارت احمد کے مطابق اس شادی کے وقت مرزا صاحب کی عمر 19 سال تھی، وہ اس اختلاف کا سبب مرزا صاحب کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف کو قرار دیتا ہے۔
ڈاکٹر بشارت احمد، مجدد اعظم، 1: 25
ملازمت
مرزا قادیانی نہ صرف دنیاوی تعلیم حاصل کرتے رہے بلکہ اس سے فائدہ اٹھایا اور 1864ء سے 1868ء تک چار سال ڈپٹی کمشنر آفس سیالکوٹ میں ملازمت کرتے رہے۔ مرزا محمود احمد اپنے والد کے بارے میں کہتا ہے:
’’اور ایسا ہوا کہ ان دنوں میں آپ گھر والوں کے طعنوں کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے قادیان سے باہر چلے گئے اور سیالکوٹ جا کر رہائش اختیار کر لی تو گزارہ کے لیے ضلع کچہری میں ملازمت بھی کر لی۔‘‘
تحفہ شہزادہ ویلز: 341 بحوالہ رئیس قادیان
گھر والوں کے طعنے کس بات پر تھے؟ اس بارے میں مرزا محمود کی خاموشی صورتحال کو پراسرار بنا دیتی ہے۔
مرزا بشیر احمد اپنے والد کی ملازمت کے بارے میں نقل کرتا ہے:
’’چونکہ تمہارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے اور کچھ عرصہ تک وہاں ملازمت پر رہے۔ پھر جب تمہاری دادی بیمار ہوئیں تو تمہارے دادا نے آدمی بھیجا کہ ملازمت چھوڑ کر آجاؤ۔ حضرت صاحب فوراً روانہ ہوگئے … خاک سار عرض کرتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء تا 1868ء کا واقعہ ہے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 1: 35، روایت نمبر: 49
ملازمت کے دوران مرزا صاحب ترقی کے لیے کوشاں رہے مگر ترقی کے لیے ضروری امتحان میں فیل ہو گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:
’’چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری کے لیے قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا، پر اس امتحان میں کامیاب نہ ہوئے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المہدی، 1: 138، روایت نمبر: 150
انگریزی خوانی
دوران ملازمت مرزاصاحب نے دو کتابیں انگریزی کی بھی پڑھیں۔ مرزا بشیر احمد اس حوالے سے لکھتاہے:
’’اسی زمانہ میں مولوی الٰہی بخش صاحب کی سعی سے جو چیف محرر مدراس تھے، کچہری کے ملازم منشیوں کے لیے ایک مدرسہ قائم ہوا کہ رات کو کچہری کے ملازم منشی انگریزی پڑھا کریں۔ ڈاکٹر امیر شاہ صاحب جو اس وقت اسسٹنٹ سرجن پنشنر ہیں، استاد مقرر ہوئے۔ مرزا صاحب نے بھی انگریزی شروع کی اورایک دو کتابیں انگریزی کی پڑھیں۔‘‘
مرزا بشیر احمد قادیانی، سیرۃ المہدی، 1: 137، روایت نمبر: 150
مرزا صاحب کا انگریزی پڑھنا یقینًاملازمت میں ترقی اور قرب شاہی کی خاطر تھا، ترقی تو مل نہ سکی مگر قرب شاہی میں بہت آگے تک پہنچ گئے۔
مختاری کا امتحان
مرزا صاحب نے وکیل بننے کی غرض سے مختاری کا امتحان بھی دیا مگر ناکام ہو گئے۔ مرزا بشیر احمد لکھتا ہے:
’’چونکہ مرزا صاحب ملازمت کو پسند نہیں فرماتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں کامیاب نہ ہوئے اور کیوں کر ہوتے، وہ دنیوی اشغال کے لیے بنائے نہیں گئے تھے۔‘‘
مرزا بشیر احمد، سیرۃ المھدی، 1: 138؛ روایت نمبر: 150
یہ دنیاوی امتحانوں میں ناکامی مرزا صاحب کو انگریز کے در پر لے گئی اور وفاداری بشرط استواری کی بدولت دیکھتے ہی دیکھتے وہ سلطنت برطانیہ کے منظور نظربن گئے۔ قادیان کے مدعی نبوت مرزا غلام احمد کی ابتدائی زندگی سے ان کی آئندہ کی زندگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ بچپن میں چڑیوں کا شکار کرکے انہیں سرکنڈے سے ذبح کرنے والے مرزا صاحب عمر بھرسادہ لوح مسلمانوں کا شکار کر کے ان کے عقائد کو اپنے مکر و فریب کی چھری سے ذبح کرتے رہے