مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست خارج

qasim-suri-ihc-pti-rsg.jpg


اسلام آباد ہائیکورٹ نے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے خارج کردی۔

پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا نوٹیفیکیشن غیر آئینی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں تو ہمارا فیصلہ موجود ہے ۔ ہم نے لکھا تھا کہ سیاسی کیسز میں ہم مداخلت نہیں کریں گے۔ ہم نے فیصلے میں لکھا تھا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ہی یہ کرے گا، عدالت کچھ نہیں کر سکتی۔

پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری نے دلائل میں کہا کہ آپ نے کبھی پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کی، ہم بھی پارلیمنٹ کا احترام کرتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ یہ مرحلہ وار استعفے منظور کریں۔ اگر کرنے ہیں تو 123 اکٹھے منظور کریں۔

عدالت نے کہا کہ اس وقت آپ کے 34 ممبران تھے جنہوں نے استعفے دیے تھے۔ ہم نے اپنے فیصلے میں بتایا تھا کہ اگر کوئی منتخب نمائندہ استعفا دے تو منظوری کا پراسس کیا ہو گا ۔ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر اس وقت بطور قائم مقام اسپیکر کام کر رہا تھا جس نے 123 استعفے منظور کیے۔

وکیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 123 ارکان اسمبلی نے استعفے دیے صرف 11 کے منظور کیے گئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسپیکر کو ہدایت نہیں دیں گے۔ ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا یا تو وہ ہر ممبر کو بلاتے اور ان کے استعفے منظور کرتے۔ ڈپٹی اسپیکر نے استعفے منظور کرنے کے اصول پر عمل نہیں کیا۔ ڈپٹی اسپیکر ایک ایک رکن کو بلاتے، الگ بٹھا کر پوچھتے۔

چیف جسٹس نے کہا عدالت کا استعفوں کی منظوری سے متعلق فیصلہ موجود ہے۔ اسپیکر کے سامنے یہ فیصلہ رکھیں کہ ہمارا استعفا ایسے منظور کریں۔ وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ وہ اقلیت کے بنائے اسپیکر ہیں، ہم ان کے پاس نہیں جاتے۔

عدالت نے کہا کہ اپنا مائنڈ سیٹ تبدیل کر کے پارلیمنٹ کو عزت دینے کی ضرورت ہے۔ اسپیکر نے 11 ارکان کے استعفے اپنی تسلی کر کے ہی قبول کیے ہوں گے۔ اسپیکر کے اس اطمینان کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ پارٹی سے کہیں ایک ایک رکن کو اسپیکر کے پاس بھیجیں۔

چیف جسٹس نے کہا اپنے ارکان کو اسپیکر کے پاس بھیجنے میں تو ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے، جس پر وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں ہچکچاہٹ ہے تو ہی عدالت میں آئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‏آئین اور عدالتی فیصلے کے برخلاف ڈپٹی اسپیکر اجتماعی طور پر استعفے قبول نہیں کر سکتا تھا۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ڈپٹی اسپیکر نے استعفوں کی اجتماعی منظوری طے شدہ طریقے کے مطابق نہیں کی۔ جب تک ارکان اسمبلی کے استعفے قبول نہ ہو جائیں کیا ان کی ڈیوٹی نہیں کہ لوگوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کریں؟ ‏استعفی دینے والا ہر رکن انفرادی طور پر اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر استعفے کی تصدیق کرے۔

عدالت نے کہا ارکان اسمبلی اکیلے نہیں وہ نمائندہ ہیں اپنے حلقے کے تمام عوام کے۔ سب پابند ہیں آئین اور قانون پر عمل کرنے کے۔ وکیل پی ٹی آئی نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کے استعفے منظور کرچکے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کا نوٹیفیکیشن غیر آئینی ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی وکیل کی کیس کو لارجر بینچ کے سامنے رکھنے کی استدعا پر ریمارکس دیے کہ لارجر بنچ بنانے کی ضرورت نہیں۔

وکیل نے کہا کہ الیکشن کرانے ہیں تو پورے123حلقوں میں کروائیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کو پتا ہے الیکشن میں کتنا خرچ آتا ہے؟ عوام اپنے نمائندے 5 سال کےلیےمنتخب کرتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ جب دل کیا استعفیٰ دیا پھرالیکشن لڑلیا۔
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا یا تو وہ ہر ممبر کو بلاتے اور ان کے استعفے منظور کرتے۔ ڈپٹی اسپیکر نے استعفے منظور کرنے کے اصول پر عمل نہیں کیا۔ ڈپٹی اسپیکر ایک ایک رکن کو بلاتے، الگ بٹھا کر پوچھتے۔

تو اس سے کوئی پوچھے کہ راجہ رینٹل نے 11 ارکان میں کس کو سامنے بیٹھا کے استعفے منظور کروائے؟
 

shafali

Chief Minister (5k+ posts)
عدالتیں کس اصول کے تحت کبھی مداخلت کرتی ہیں اور کبھی نہیں۔ جج صاحب یہ دوغلا پن چھوڑو تاکہ دنیا کی انصاف کی رینکنگ میں پاکستان تھوڑا بہت اوپر آ سکے۔
 

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
D Speaker ki ruling ke baray mein CJ.Athar ka decision theek ha.Agar CJ.us ruling ko accept ya maan leta ha tu SC ka VNC ka faisla illegal ya doubtful ho jaya ga..Resignations ke baray mein CJ.Athar bilkul fazool baat kar raha ha..Belkey Bacho wali baat kar raha ha ..Wakeel Judge se pochta ke jin halqo par By election ho raha ha wahan kis kis ko speaker ne bula kar tasdeeq ki??PTI ko koi acha wakeel karna chahay is case mein.Faisal itnay high level ka wakeel nahi. By parts By election karana dishonesty ha Gov.ur EC ki.Koi Judge kisi party ki policy par sawal nahi utha sakta.Assembly bina single majority wali party opposition ke bina chal rahi ha.Adalat ko Gov ke har approved laws par sawal uthana chahay..PTI is case mein SC ko bhi test karay..
 

Back
Top