Zainsha
Chief Minister (5k+ posts)
مظہر برلاس
پنجاب کے اقتدار کی کھینچا تانی میں پی ڈی ایم ہار گئی اور عمران خان کی حکمت عملی جیت گئی، وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے گزشتہ روز 186 ووٹ حاصل کرکے ضمیر فروشی کی سیاست کرنے والوں کو چاروں شانے چت کیا۔
خرید و فروخت کا کھیل ہار گیا، وفاق سے تین اشخاص پنجاب کو فتح کرنے آئے تھے مگر وہ پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے، اپنے اراکین سے بائیکاٹ کروا کے بھاگتے ہوئے پریس کانفرنس کرکے چلے گئے، سارا فضائی ریکارڈ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ سب سے حیران کن انٹری بسمہ ریاض کی تھی جو اپنی فون سم امریکہ چھوڑ کر پاکستان آگئیں، جونہی فتح کا خواب دیکھنے والوں نے بسمہ ریاض کو دیکھا تو ان کے چہروں کے رنگ فق ہوگئے۔
اب تاویلیں گھڑی جارہی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی ناراض اراکین کو اس شرط پر منانے میں کامیاب ہوئے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیںگے۔ جوبھی کہا جائے سچ یہی ہے کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ نے پنجاب میں میدان مار لیا ہے اور انہوں نے پی ڈی ایم کی تمام تر کاوشوں کو ناکام بنا کے رکھ دیا ہے۔ اب فی الحال میاں نواز شریف پاکستان نہیں آئیں گے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پی ٹی آئی کا پرچم بلند رہے گا۔
چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ ’’محکمہ زراعت‘‘ غیر جانبدار رہا۔ اسلام آباد سے آکر ناکام ہوکر جانے والوں کو فواد چوہدری نے نیا نام چنوں منوں کا دیا ہے۔ پتہ نہیں یہ نام پی ڈی ایم کو ہضم ہوگا یا نہیں۔
آج کل یہ باتیں کھل گئی ہیں کہ کس طرح جنرل باجوہ اسرائیل کو تسلیم کروانے کیلئے عمران خان پر پریشر ڈالتے رہے اور کس طرح کشمیر کا مقدمہ بھول جانے کیلئے دبائو ڈالتے رہے۔ ایک کالم نگار نے تو لکھ دیا ہے کہ کس طرح شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ میں اجلاس بلایا اور جنرل باجوہ کو وہاں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ وضاحتیں یہاں اور کردوں کہ شاہ محمود قریشی نے یہ کام عمران خان کے کہنے پر کیا تھا کیونکہ عمران خان کشمیر کے مقدمے سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں تھے،
شاہ محمود قریشی کی بھی یہی سوچ تھی۔ اس دوران تمام تر دبائو کے باوجود عمران خان نے جھکنے سے انکار کردیا، یہ انکار دراصل سیاسی موت سے بچنا تھا۔ اقتدار اور سیاست کے اس کھیل میں کچھ لوگ بڑی چالاکی سے عمران خان کی سیاسی قبر کھود رہے تھے مگر عمران خان اس مرحلے پر قائداعظمؒ کے فرمودات لے آئے۔ خاص طور پر اسرائیل کے حوالے سے تو انہوں نے قائداعظمؒ کے فرمان کو سامنے رکھ کر صاف انکار کردیا کہ وہ کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔
مجھے یاد ہے کہ اس دوران عمران خان پر کچھ اور ممالک کا بھی دبائو تھا۔ کچھ ممالک نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہوگا کہ اگر آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو
بے شمار فوائد ہوں گے۔ اس وقت کچھ دوستوں نے یہاں تک کہا کہ اچھا کشمیر تو ہمارے ساتھ ہے مگر اسرائیل کی تو پاکستان سے کوئی سرحد نہیں ملتی لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے، پھر جب دوسرے مسلمان ملک اسرائیل کوتسلیم کر رہے ہیں تو ہمیں بھی کرلینا چاہیے، ان تمام تجاویز اور مشوروں کے سامنے عمران خان چٹان کی طرح کھڑا رہا اور مشورہ دینے والوں کے سامنے قائداعظمؒ کا فرمان دہراتا رہا۔
یہاں مجھے ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے کہ جب عمران خان سعودی عرب گئے تو محمد بن سلمان انہیں گاڑی میں بٹھا کر ریاض کی سڑکوں پر پون گھنٹہ گھومتا رہا۔ ظاہر ہے جب بغیر ڈرائیور کے ایک گاڑی میں دو اہم شخصیات ہوں تو وہ یقیناً خاص باتیں کریں گے۔ جب پاکستانی وفد واپس آیا تو سب کو بے چینی تھی کہ آخر ان دونوں کے درمیان کیا باتیں ہوئیں، کچھ تو پتہ چلے۔ ایک سہ پہر اس خاکسار نے عمران خان سے پوچھا کہ آخر شہزادے نے آپ سے کچھ تو کہا ہوگا؟
میرے اس جملے پر عمران خان نے کہا کہ باتیں تو بہت ہوئیں مگر ایک بات شہزادے نے بہت خطرناک کی لیکن میں نے اس کی بات ماننے کے بجائے اسے اپنی بات پر قائل کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آخر وہ کونسی خطرناک بات تھی؟ اس پر عمران خان بولے ...’’ ایم بی ایس نے مجھ سے کہا کہ ہم ایران پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمارا ساتھ دیں، میں نے شہزادے سے کہا کہ آپ ایران سے جنگ نہ کریں کیونکہ دونوں مسلمان ملک ہیں، دونوں کی جنگ سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ ایسا نہ کرنا، اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے،
میں اپنے ملک میں خانہ جنگی نہیں چاہتا، اگر میں نے آپ کا ساتھ دیا تو میرے ملک میں ہنگامے شروع ہو جائیں گےجو پاکستانی معاشرے کو خانہ جنگی کی طرف لے جائیں گے، میں اپنے ملک میں فسادات نہیں کروانا چاہتا البتہ میں ایک کام بہت اچھے طریقے سے کر سکتا ہوں، میں آپ کی ایران کے ساتھ صلح کروا دیتا ہوں، یہ میرا کام ہے، میں ایرانی قیادت کو منالوں گا، میں آپ دونوں کو جنگ سے بچانا چاہتا ہوں، دونوں کا نقصان دراصل میرا نقصان ہوگا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور میں کسی قیمت پر مسلمانوں کا نقصان نہیں ہونے دوں گا...‘‘
عمران خان ایران گئے،انہوں نے ایرانی قیادت کو راضی کیا اور وہ سعودی عرب سے مذاکرات کرنے کیلئےنہ صرف تیار ہوئے بلکہ سعودی عرب چلے بھی گئے، اس طرح دونوں مسلمان ملک ایک بڑے نقصان سے بچ گئے۔ بقول احمد فرازؔ؎
آج سب کو دعویٰ ہے اپنی اپنی چاہت کا
کون کس سے ہوتا ہے کل جدا نہیں معلوم
Source
پنجاب کے اقتدار کی کھینچا تانی میں پی ڈی ایم ہار گئی اور عمران خان کی حکمت عملی جیت گئی، وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے گزشتہ روز 186 ووٹ حاصل کرکے ضمیر فروشی کی سیاست کرنے والوں کو چاروں شانے چت کیا۔
خرید و فروخت کا کھیل ہار گیا، وفاق سے تین اشخاص پنجاب کو فتح کرنے آئے تھے مگر وہ پورس کے ہاتھی ثابت ہوئے، اپنے اراکین سے بائیکاٹ کروا کے بھاگتے ہوئے پریس کانفرنس کرکے چلے گئے، سارا فضائی ریکارڈ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ سب سے حیران کن انٹری بسمہ ریاض کی تھی جو اپنی فون سم امریکہ چھوڑ کر پاکستان آگئیں، جونہی فتح کا خواب دیکھنے والوں نے بسمہ ریاض کو دیکھا تو ان کے چہروں کے رنگ فق ہوگئے۔
اب تاویلیں گھڑی جارہی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی ناراض اراکین کو اس شرط پر منانے میں کامیاب ہوئے کہ وہ اسمبلی نہیں توڑیںگے۔ جوبھی کہا جائے سچ یہی ہے کہ پی ٹی آئی اور ق لیگ نے پنجاب میں میدان مار لیا ہے اور انہوں نے پی ڈی ایم کی تمام تر کاوشوں کو ناکام بنا کے رکھ دیا ہے۔ اب فی الحال میاں نواز شریف پاکستان نہیں آئیں گے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پی ٹی آئی کا پرچم بلند رہے گا۔
چوہدری پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مرتبہ ’’محکمہ زراعت‘‘ غیر جانبدار رہا۔ اسلام آباد سے آکر ناکام ہوکر جانے والوں کو فواد چوہدری نے نیا نام چنوں منوں کا دیا ہے۔ پتہ نہیں یہ نام پی ڈی ایم کو ہضم ہوگا یا نہیں۔
آج کل یہ باتیں کھل گئی ہیں کہ کس طرح جنرل باجوہ اسرائیل کو تسلیم کروانے کیلئے عمران خان پر پریشر ڈالتے رہے اور کس طرح کشمیر کا مقدمہ بھول جانے کیلئے دبائو ڈالتے رہے۔ ایک کالم نگار نے تو لکھ دیا ہے کہ کس طرح شاہ محمود قریشی نے وزارت خارجہ میں اجلاس بلایا اور جنرل باجوہ کو وہاں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ وضاحتیں یہاں اور کردوں کہ شاہ محمود قریشی نے یہ کام عمران خان کے کہنے پر کیا تھا کیونکہ عمران خان کشمیر کے مقدمے سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں تھے،
شاہ محمود قریشی کی بھی یہی سوچ تھی۔ اس دوران تمام تر دبائو کے باوجود عمران خان نے جھکنے سے انکار کردیا، یہ انکار دراصل سیاسی موت سے بچنا تھا۔ اقتدار اور سیاست کے اس کھیل میں کچھ لوگ بڑی چالاکی سے عمران خان کی سیاسی قبر کھود رہے تھے مگر عمران خان اس مرحلے پر قائداعظمؒ کے فرمودات لے آئے۔ خاص طور پر اسرائیل کے حوالے سے تو انہوں نے قائداعظمؒ کے فرمان کو سامنے رکھ کر صاف انکار کردیا کہ وہ کسی صورت اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے۔
مجھے یاد ہے کہ اس دوران عمران خان پر کچھ اور ممالک کا بھی دبائو تھا۔ کچھ ممالک نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہوگا کہ اگر آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو
بے شمار فوائد ہوں گے۔ اس وقت کچھ دوستوں نے یہاں تک کہا کہ اچھا کشمیر تو ہمارے ساتھ ہے مگر اسرائیل کی تو پاکستان سے کوئی سرحد نہیں ملتی لہٰذا اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے، پھر جب دوسرے مسلمان ملک اسرائیل کوتسلیم کر رہے ہیں تو ہمیں بھی کرلینا چاہیے، ان تمام تجاویز اور مشوروں کے سامنے عمران خان چٹان کی طرح کھڑا رہا اور مشورہ دینے والوں کے سامنے قائداعظمؒ کا فرمان دہراتا رہا۔
یہاں مجھے ایک اور واقعہ یاد آ رہا ہے کہ جب عمران خان سعودی عرب گئے تو محمد بن سلمان انہیں گاڑی میں بٹھا کر ریاض کی سڑکوں پر پون گھنٹہ گھومتا رہا۔ ظاہر ہے جب بغیر ڈرائیور کے ایک گاڑی میں دو اہم شخصیات ہوں تو وہ یقیناً خاص باتیں کریں گے۔ جب پاکستانی وفد واپس آیا تو سب کو بے چینی تھی کہ آخر ان دونوں کے درمیان کیا باتیں ہوئیں، کچھ تو پتہ چلے۔ ایک سہ پہر اس خاکسار نے عمران خان سے پوچھا کہ آخر شہزادے نے آپ سے کچھ تو کہا ہوگا؟
میرے اس جملے پر عمران خان نے کہا کہ باتیں تو بہت ہوئیں مگر ایک بات شہزادے نے بہت خطرناک کی لیکن میں نے اس کی بات ماننے کے بجائے اسے اپنی بات پر قائل کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آخر وہ کونسی خطرناک بات تھی؟ اس پر عمران خان بولے ...’’ ایم بی ایس نے مجھ سے کہا کہ ہم ایران پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمارا ساتھ دیں، میں نے شہزادے سے کہا کہ آپ ایران سے جنگ نہ کریں کیونکہ دونوں مسلمان ملک ہیں، دونوں کی جنگ سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ ایسا نہ کرنا، اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے،
میں اپنے ملک میں خانہ جنگی نہیں چاہتا، اگر میں نے آپ کا ساتھ دیا تو میرے ملک میں ہنگامے شروع ہو جائیں گےجو پاکستانی معاشرے کو خانہ جنگی کی طرف لے جائیں گے، میں اپنے ملک میں فسادات نہیں کروانا چاہتا البتہ میں ایک کام بہت اچھے طریقے سے کر سکتا ہوں، میں آپ کی ایران کے ساتھ صلح کروا دیتا ہوں، یہ میرا کام ہے، میں ایرانی قیادت کو منالوں گا، میں آپ دونوں کو جنگ سے بچانا چاہتا ہوں، دونوں کا نقصان دراصل میرا نقصان ہوگا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور میں کسی قیمت پر مسلمانوں کا نقصان نہیں ہونے دوں گا...‘‘
عمران خان ایران گئے،انہوں نے ایرانی قیادت کو راضی کیا اور وہ سعودی عرب سے مذاکرات کرنے کیلئےنہ صرف تیار ہوئے بلکہ سعودی عرب چلے بھی گئے، اس طرح دونوں مسلمان ملک ایک بڑے نقصان سے بچ گئے۔ بقول احمد فرازؔ؎
آج سب کو دعویٰ ہے اپنی اپنی چاہت کا
کون کس سے ہوتا ہے کل جدا نہیں معلوم
Source
Last edited by a moderator: