
عدالت کا اصل دائرہ اختیار غیرمعمولی ہے جس کا استعمال صرف بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے خاص موقعوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے: اختلافی فیصلہ
سپنجاب وخیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے۔
جس کے مطابق پنجاب وخیبرپختونخوا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق درخواست مسترد اور اور لاہور وپشاور ہائیکورٹس کو زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ کرنے کی ہدایات کر دی گئی ہیں۔ تفصیلی فیصلے کے مطابق الیکشن ازخود نوٹس 4 ججز نے مسترد کر دیا ہے جبکہ آرڈر آف کورٹ 4-3 کا فیصلہ ہے۔
الیکشن ازخود نوٹس کیس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کو ایک شخص فیصلوں پر نہیں چھوڑ سکتے، چیف جسٹس کے "ون مین پاور شو" کے اختیار پر نظرثانی کرنی ہو گی۔ وقت آ چکا ہے کہ چیف جسٹس آفس کے "ون مین شو" کا سلسلہ ختم کیا جائے، اس حوالے سے فل کورٹ پالیسی بنانی ہو گی۔
کسی کیس میں ایک بار کازلسٹ جاری ہونے کے بعد بینچ تبدیل نہیں ہو سکتا۔
فیصلے کے مطابق ججوں کی صلاحیت یا سہولت اور تنازعہ کی نوعیت نہیں بلکہ آئین اور قوانین سے عدالت کے دائرہ اختیار کا تعین ہوتا ہے، جب ججز کی صلاحیتیں اور سہولت غالب آ جائیں تو سامراجی سپریم کورٹ کا تصور ابھرتا ہے۔ فیصلے میں پروفیسر مارک اے لیملی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا کہ گزشتہ چند سالوں میں امریکی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں سے انتظامیہ، کانگریس اور چھوٹی عدالتوں کی طاقت کو بھی غصب کر لیا ہے۔
امریکی سپریم کورٹ کے اداروں کے اختیارات غصب کرنے سے یہ فوری خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ آئینی نظام کو نقصان پہنچائے گی جبکہ اس کے دوررس خطرہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے۔
عوام کی نظروں میں عدالت کے سیاسی ادارے میں تبدیل ہونے سے اس کے فیصلوں کی قانونی حیثیت اور اعتبار کو نقصان پہنچے گا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہماری سپریم کورٹ اپنے فیصلوں کے ذریعے حکومت، پارلیمنٹ اور صوبائی ہائیکورٹس کے اختیارات کو سلب کرنے کے ساتھ سامراجی سپریم کورٹ نہ بن جائے۔
ہمیں جو دائرہ اختیار دیا گیا ہے اس کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہو گا، اس سے زیادہ نہیں کہ جو دیا گیا ہے۔ازخود نوٹس کیس سے منسلک آئینی درخواستیں عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اپنے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کا کہتی ہیں ، یہ معاملات پہلے ہی صوبائی ہائیکورٹس میں زیرالتوا ہیں اور ایک کیس میں صوبائی ہائیکورٹ فیصلہ کر چکی ہے جس پر قانون کو دیکھنا ہو گا۔
فیصلے کے مطابق بہت ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت جائزہ لینا ہو گا کہ صوابدیدی دائرہ اختیار عدالتی حد سے تجاوز کے زمرے میں تو نہیں آتا۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس عدالت کا اصل دائرہ اختیار صوابدیدی کے علاوہ خصوصی اور غیرمعمولی بھی ہے جس کا استعمال صرف بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے خاص موقعوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
عدالت کے اس غیرمعمولی اختیار کو بار بار استعمال کرنے سے ادارے کے غیرجانبدار ہونے کے عوامی امیج کو نقصان پہنچتا ہے۔ ادارے پر عوامی اعتماد کے فقدان کے باعث عدالت اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے قانونی جواز کھو دیتی ہے۔ عدالت کی قانونی حیثیت ادارے کے لیے نہیں بلکہ عوام کیلئے ہوتی ہے جس کے سامنے وہ ذمہ دار ہے۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/14cjmansormandokhlel.jpg