no_handle_
MPA (400+ posts)
ایک فلم تھی "دا میسج"۔ قریش کا لدا پھندا تجارتی قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں مکہ واپس آ رہا ہے۔ مدینے والوں کو اس کی خبر ہو جاتی ہے۔ وہاں سے ایک ٹولی اس پر حملہ کی غرض سے نکلتی ہے۔ یہ خبر مکے والوں تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ وہ اسے مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کا بہترین موقع قرار دیتے ہیں۔ قریش کا مسلح لشکر مکہ سے نکلتا ہے۔ مسلمانوں پر دو اطراف سے حملہ کرنے کا ارادہ ہے۔ حضرت خالد بن ولید ابھی مسلمان نہیں ہوئے۔ وہ قافلے کے امیر ابو سفیان کے جا کر مسلمانوں پر حملہ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ابو سفیان لڑنے کی بجائے بھاگنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ خالد بن ولید حیرت سے پوچھتے ہیں کہ، "Where is your pride". ابو سفیان سادہ سا جواب دیتے ہیں، "My pride is on the backs of my camels". ان کا اشارہ اس تجارتی سامان کی طرف تھا جو اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔
بلی گراہم نے کیا خوب کہا تھا، "جب بات پیسے کی آ جائے تو سب کا مذہب ایک ہی ہوتا ہے"۔ اسی مذہب کے پرچم تلے ساری پی ڈی ایم جمع ہے۔ اور جرنیلوں کا مذہب بھی یہی ہے۔ وہ بچپن میں کہانیاں سنتے تھے کہ اگر طاقت ور دیو کو مارنا ہے تو فلاں پنجرے میں ایک چڑیا قید ہے۔ اس کی گردن مڑور دو گے تو دیو کی جان بھی نکل جائے گی۔
پنجاب میں عوام کو انہوں نے کسی حد تک باندھ لیا ہے۔ کیوں کہ عوام کی جان ان کی ماؤں اور بہنوں میں ہے۔ جب ان کے ہاتھ عوام کی جان تک پہنچے تو عوام بھی کچھ پیچھے ہٹ گئی۔ اگر عوام کے ہاتھ جرنیلوں کی جان تک پہنچ گئے تو وہ بھی پیچھے ہٹ جائیں گے۔
اس پریشانی کے عالم میں لوگوں کے ذہن میں جو تجویز آ رہی ہے، وہ کہہ رہے ہیں۔ کوئی کہتا کسی پرانی کشتی میں نعرہ لگاؤ، "یہ ڈی ایچ اے کے لیے اچھی جگہ ہے"، تو پانچ منٹ میں وہ کشتی جرنیلوں سے بھر جائے گی۔ اسے پھر ڈبو دو وغیرہ وغیرہ۔
کچھ زیادہ سنجیدہ تجویزیں بھی ہیں۔ کہ بیرون ملک پاکستانی زر مبادلہ بھیجنا بالکل بند کر دیں۔ لیکن اس سے سارے پاکستان کا نقصان ہو گا اور نتائج بھی دیر سے نکلیں گے۔ ہمیں گھنٹوں یا دنوں میں نتیجہ نکالنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں صرف جرنیلوں کا معاشی بائیکاٹ کرنا ہے۔
ہم بطور قوم بس یہ عہد کر لیں کہ کسی کینٹ یا ڈی ایچ اے یا ان کے کسی بھی علاقے میں واقع کسی بھی دوکان سے چائے کا ایک کپ بھی نہیں پینا۔ جو برگر کھانا ہے، وہ کسی سویلین علاقے میں قائم شاخ سے کھا لیں۔ کینٹ اور ڈی ایچ میں پچانوے فیصد پٹرول پمپ جرنیل صاحبان کے ہیں۔ کسی سویلین علاقے میں پمپ سے پٹرول ڈلوا لیں۔ بس کینٹ اور ڈی ایچ اے ویران کر دیں۔ گیہوں کے ساتھ کچھ گھن بھی پسے گا لیکن اسٹبلشمنٹ دنوں میں اپنے گھٹنوں پر آ جائے گی۔
پاکستانی عوام کے ساتھ یہ سب کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کو اندھا پیسہ درکار ہے۔ یہ سرکاری وسائل کے ساتھ ساتھ لاتعداد جائز نا جائر طریقوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ پھر یہ پیسہ رشوتوں اور لابی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو سو فیصد روکا نہیں جا سکتا لیکن اس بائیکاٹ سے اس میں واضح کمی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جب جرنیلوں کے ذاتی مفاد ہدف پر آئیں گے تو پھر وہ بھی مسائل کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دینے لگیں گے۔
آپ اس پر اپنی رائے ضرور دیں۔ ایک تو عسکری اکاؤنٹ ہوں گے جو فوراً چلانے لگیں گے کہ نہیں نہیں اس سے کچھ نہیں ہونا، یا اس عوام کے بس کی یہ بات نہیں۔ ایسے لوگوں کو نظر انداز کر کے دلائل کے ساتھ صحت مند بات کریں۔
یہ کام پی ٹی آئی کا نہیں پاکستانی عوام کے کرنے کا ہے۔
بلی گراہم نے کیا خوب کہا تھا، "جب بات پیسے کی آ جائے تو سب کا مذہب ایک ہی ہوتا ہے"۔ اسی مذہب کے پرچم تلے ساری پی ڈی ایم جمع ہے۔ اور جرنیلوں کا مذہب بھی یہی ہے۔ وہ بچپن میں کہانیاں سنتے تھے کہ اگر طاقت ور دیو کو مارنا ہے تو فلاں پنجرے میں ایک چڑیا قید ہے۔ اس کی گردن مڑور دو گے تو دیو کی جان بھی نکل جائے گی۔
پنجاب میں عوام کو انہوں نے کسی حد تک باندھ لیا ہے۔ کیوں کہ عوام کی جان ان کی ماؤں اور بہنوں میں ہے۔ جب ان کے ہاتھ عوام کی جان تک پہنچے تو عوام بھی کچھ پیچھے ہٹ گئی۔ اگر عوام کے ہاتھ جرنیلوں کی جان تک پہنچ گئے تو وہ بھی پیچھے ہٹ جائیں گے۔
اس پریشانی کے عالم میں لوگوں کے ذہن میں جو تجویز آ رہی ہے، وہ کہہ رہے ہیں۔ کوئی کہتا کسی پرانی کشتی میں نعرہ لگاؤ، "یہ ڈی ایچ اے کے لیے اچھی جگہ ہے"، تو پانچ منٹ میں وہ کشتی جرنیلوں سے بھر جائے گی۔ اسے پھر ڈبو دو وغیرہ وغیرہ۔
کچھ زیادہ سنجیدہ تجویزیں بھی ہیں۔ کہ بیرون ملک پاکستانی زر مبادلہ بھیجنا بالکل بند کر دیں۔ لیکن اس سے سارے پاکستان کا نقصان ہو گا اور نتائج بھی دیر سے نکلیں گے۔ ہمیں گھنٹوں یا دنوں میں نتیجہ نکالنا ہے۔ اس کے لیے ہمیں صرف جرنیلوں کا معاشی بائیکاٹ کرنا ہے۔
ہم بطور قوم بس یہ عہد کر لیں کہ کسی کینٹ یا ڈی ایچ اے یا ان کے کسی بھی علاقے میں واقع کسی بھی دوکان سے چائے کا ایک کپ بھی نہیں پینا۔ جو برگر کھانا ہے، وہ کسی سویلین علاقے میں قائم شاخ سے کھا لیں۔ کینٹ اور ڈی ایچ میں پچانوے فیصد پٹرول پمپ جرنیل صاحبان کے ہیں۔ کسی سویلین علاقے میں پمپ سے پٹرول ڈلوا لیں۔ بس کینٹ اور ڈی ایچ اے ویران کر دیں۔ گیہوں کے ساتھ کچھ گھن بھی پسے گا لیکن اسٹبلشمنٹ دنوں میں اپنے گھٹنوں پر آ جائے گی۔
پاکستانی عوام کے ساتھ یہ سب کرنے کے لیے اسٹبلشمنٹ کو اندھا پیسہ درکار ہے۔ یہ سرکاری وسائل کے ساتھ ساتھ لاتعداد جائز نا جائر طریقوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ پھر یہ پیسہ رشوتوں اور لابی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کو سو فیصد روکا نہیں جا سکتا لیکن اس بائیکاٹ سے اس میں واضح کمی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جب جرنیلوں کے ذاتی مفاد ہدف پر آئیں گے تو پھر وہ بھی مسائل کو بات چیت سے حل کرنے پر زور دینے لگیں گے۔
آپ اس پر اپنی رائے ضرور دیں۔ ایک تو عسکری اکاؤنٹ ہوں گے جو فوراً چلانے لگیں گے کہ نہیں نہیں اس سے کچھ نہیں ہونا، یا اس عوام کے بس کی یہ بات نہیں۔ ایسے لوگوں کو نظر انداز کر کے دلائل کے ساتھ صحت مند بات کریں۔
یہ کام پی ٹی آئی کا نہیں پاکستانی عوام کے کرنے کا ہے۔