
پشاور ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ سویلین کیسز آرمی سیکرٹ ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جاسکتے ہیں ؟ اس کیلئے تو آئین کی تشریح کی ضرورت ہے۔
تفصیلات کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں سویلین کیسز آرمی کورٹس میں چلائے جانے کے خلاف درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی، دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے مقدمات میں نامزد 7 ملزمان کے کیسز ملٹری کورٹس میں منتقل کیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی سویلین کے خلاف ملٹری کورٹس میں مقدمات نہیں چلائے جاسکتے، ایسا کرنے کیلئے تو آئین میں ترمیم کرنا ہوگی،23ویں ترمیم کے بعد سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں نہیں ہوسکتا۔
سرکاری وکیل نے موقف اپنایا کہ ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹر اس معاملے میں اپنی رائے دے چکا ہے، ایف آئی آر میں پہلے ہی ایف آئی آر شامل نہیں ہے۔
دوران سماعت جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیئے کہ آرمی سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو الزامات ثابت ہونے کے بعد کورٹ مارشل ہوتا ہے، سویلین کیسز اس ایکٹ کے تحت کیسے چلائے جاسکتے ہیں؟ ایسا کرنے کیلئے تو آئین کی تشریح کی ضرورت ہوگی۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کیس کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین تیاری کرلیں، 13 جون کو کیس دوبارہ سنیں گے۔