
پی ڈی ایم کے آخری چند دنوں کو سیاسیات میں سیاسی، انتخابی اور اخلاقی خودکشی کے کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے: ریما عمر
عمران خان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہونے کے بعد پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے پر شادیانے بجانے والے صحافی بھی اب موجودہ حکومت سے مایوس ہونے لگے ہیں۔
الف کے نام سے اکاؤنٹ چلانے والے سوشل میڈیا صارف نے ماضی میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ رکھنے والے پی ڈی ایم کے حامی صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کے بیانات کا موازنہ کیا ہے۔ سینئر صحافی عائلیہ زہرہ نے تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے پر اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا تھا کہ: پاکستان کو مبارکباد! اچھے دن آنے والے ہیں، جمہوریت زندہ باد! جبکہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ پاس ہونے کے بعد آج اپنے پیغام میں لکھا کہ: پی ڈی ایم کو بھی اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا!
https://twitter.com/x/status/1687096981485756416
https://twitter.com/x/status/1686800043443974150
عمار علی جان نے پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے پر ایک پیغام میں لکھا تھا کہ: نظریہ ضرورت کا تلخ ورثہ دفن کیا جا چکا ہے، ہم نے 1954 سے پیچھا کرنے والے بھوتوں سے پیچھا چھڑا لیا، پاکستان زندہ باد!
اور اب پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے کی جانے والی قانون سازی پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: پی ڈی ایم حکومت نے اپنے دور اقتدار کے آخری چند دنوں میں جو قانون سازی کی ہے اسے سیاسیات میں سیاسی، انتخابی اور اخلاقی خودکشی کے کیس سٹڈی کے طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔ کورس کا عنوان ہونا چاہئے "جمہوریت کو کیسے ختم کیا جائے؟"
سینئر صحافی عاقل شاہ نے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر لکھا کہ: پاکستان کو مبارک باد! آئین پاکستان جیت گیا!
سینئر تجزیہ کار ریما عمر کا پی ڈی ایم حکومت آنے پر کہنا تھا کہ: آئین پاکستان پر اعتماد بڑھ گیا ہے، نظریہ ضرورت کو دفن کر دیا گیا ہے، محسوس ہو رہا ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ امیدیں رکھنا غیرحقیقی عمل نہیں!
اور گزشتہ روز اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا کہ: پی ڈی ایم کی طرف سے موجودہ قانون سازی پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ: اگر اس حکومت کے پاس نمبر ہوتے تو شاید یہ آئین سے بنیادی حقوق کے چیپٹر کو ہی نکال دیتی اور معیشت، عدالتی نظام ، پولیسنگ، گورننس سب فوج کے حوالے کر دیتی ! "جمہوری" دور میں ایک کے بعد ایک ایسی آمرانہ قانون سازی واقعی بے مثال ہے!
پی ٹی آئی حکومت کے جانے پر ندا کرمانی اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا تھا میں خوشی منا رہی ہوں مگر اب وہ بھی مایوس ہیں۔
سوشل میڈیا صارف نے سینئر صحافی وتجزیہ کار بینظیر شاہ کی منافقت بے نقاب کرتے ہوئے لکھا کہ: یاددہانی کروانا چاہتا ہوں کہ جب عمران خان کی گرفتاری کیلئے ان کی رہائشگاہ زمان پارک پر غیرقانونی طور پر دھاوا بولا گیا، گیٹ توڑا گیا اور گھر کی چیزیں توڑ پھوڑ دی گئیں تو بینظیر شاہ اور ان کی دوست رمل رینجرز کی اضافی نفری طلب کرنے کاکہہ رہے تھے!
https://twitter.com/x/status/1687464971561820160
بینظیر شاہ نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا تھا کہ: وزیر داخلہ نے نجی ٹی وی چینل جیو کے اینکر شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ رینجرز کو راضی کرنا آسان نہیں تھا کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کیلئے کیے جانے والے آپریشن میں پولیس کو مدد کریں۔ وزیر داخلہ کو پیراملٹری فورس کو اس بات پر قائل کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا رینجرز وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ نہیں ہے؟
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/9lianjssaafaiaiaiai.jpg