پنجاب فوڈ اتھارٹی ایک مردہ محکمہ تھا
جسے ایک دبنگ خاتون آفیسر عائشہ ممتاز نے زندہ کیا
اس خاتون آفیسر نے دنوں میں نہ صرف محکمے کو فعال کیا بلکہ پہلی بار ریستورانوں اور بیکریوں پر چھاپے مارنا شروع کر دئیے
جب تک یہ خاتون غریب اور مڈل کلاس تک محدود رہی
اس کو فیم ملتا رہا
رعب داب بھی قائم رہا
پھر اس خاتون نے پاکستان کو انگلینڈ سمجھنے کی غلطی کرتے ہوئے مونال ریسٹورنٹ پر چھاپہ مار دیا
اور یہ چھاپہ عائشہ ممتاز کے گلے پڑ گیا
اس کا تبادلہ ہی نہیں ہوا
اس پر کیسز بنا کر گرفتار بھی کیا گیا
آج کل عمارہ اطہر نامی ایک خاتون آفیسر سی ٹی او لاہور تعینات ہوئی ہیں
اور ان کے آنے کے بعد ٹریفک پولیس بہت ایکٹو نظر آ رہی ہے
لائسنس بنوانے والوں میں ہزار فیصد اضافہ ہوا ہے
پکڑ دھکڑ جاری ہے
ہزاروں کیسز بن چکے ہیں
اور روزانہ کروڑوں روپیہ جرمانے کی مد میں اکٹھا کیا جا رہا ہے
یہ خاتون بھی جب تک غریبوں کے بچے پکڑتی رہیں گی
محفوظ رہیں گی
جس دن اشرافیہ کا کوئی بگڑا بچہ پکڑ لیا
اسی دن تبادلہ ہو جائے گا
اس ملک میں قانون صرف غربا اور مڈل کلاس کیلئے ہے
اشرافیہ کیلئے تو یہ قانون فوجی بوٹ کے نیچے لگی مٹی سے بھی کم حیثیت رکھتا ہے