And I disagree that rule of law and justice are a by product of financial stability but rather the other way round. Financial stability only comes through rule of law and justice, take Nigeria's example it is one of the major oil exporting countrys in the world ( $52 billion in 2022 ) yet its population is dirt poor. Why? Because there is no rule of law and justice, the corrupt just pocket the money, there is no rule of law to stop the corruption and the population never sees any of that money.
کسی بھی معاشرے میں رول آف لاء اور جسٹس کس نے قائم کرنا ہوتا ہے؟ اسی معاشرے کے لوگوں نے۔ جج ہوں، پولیس والے ہوں ، یا سیاستدان، سب اسی معاشرے سے نکل کر آتے ہیں، اگر معاشرہ بحثیت مجموعی مالی بدحالی کا شکار ہو تو ایسے معاشرے میں ہر شخص عدم تحفظ کا شکار ہوگا اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہوگا۔ چاہے وہ عام ریڑھی والا ہو ، پولیس والا ہو، جج ہو یا وزیراعظم۔ پھر کیا کوئی آسمان سے آکر رول آف لاء قائم کرے گا۔ ایسے معاشرے میں اگر چند افراد دیانتدار ہوں بھی تو وہ کوئی تبدیلی نہیں لاسکتے۔
ہاں ایک ایسا معاشرہ جس میں بحثیت مجموعی مالی ابتری نہ ہو، ایسے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت امن اور سکون سے رہنا چاہے گی، لوگوں کی اکثریت نہ دوسرے کا مال لوٹے گی اور نہ چاہے گی کہ دوسرے ان کا مال لوٹیں۔ (ہاں ایک اقلیت موجود رہے گی جو جرائم پیشہ اور شرپسند حرکات پر مائل رہے گی، مگر اس کو معاشرے کی اکثریت کنٹرول کرلے گی) ایسے معاشرے سے جو جج، پولیس والے، اور سیاستدان نکل کرر آئیں گے ان کیلئے ایسے معاشرے کو مزید بہتر کرنا بہت آسان ہوگا۔ ایسے معاشرے میں جسٹس اور رول آف لاء بھی قائم کرنا آسان ہوگا۔ بہ نسبت پہلے والے معاشرے کے۔
یہ امریکی نفسیات دان ابراہم میسلو کی پیش کردہ ہائرارکی آف نیڈز ہے۔ جس کو انسانی نفسیات کو سمجھنے میں خاص مقام حاصل ہے۔ اور یہ کامن سینس کی بات بھی ہے۔ اس کے مطابق انسان کی سب سے پہلی ضرورت خوراک، پانی، پناہ اور کپڑے وغیرہ ہیں۔ جب یہ ضرورت پوری ہوجائے تو پھر وہ اپنی سیفٹی اور سیکورٹی چاہتا ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں وہ معاشرتی تعلقات قائم کرتا ہے۔ جب یہ تینوں ضروریات پوری ہوجائیں پھر وہ اپنی قابلیت کو بروئے کار لاکر اچیومنٹس حاصل کرتا ہے، دنیا میں کانٹری بیوٹ کرتا ہے، نئی ایجادات کرتا ہے۔ اور سب سے اوپر والے مرحلے پر بہت کم لوگ پہنچتے ہیں جو کہ سیلف ایکچولائزیشن کا مرحلہ ہے، اس مرحلے پر انسان دنیا پر اور اپنے وجود پر سوالات اٹھاتا ہے، فلسفی نئے فلسفے تراشتے ہیں، دنیا کو بہتر کرنے کے اصول وضع کرتے ہیں۔
مسلم معاشروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ روزی روٹی اور تحفظ کے مرحلوں سے ہی نہیں نکل پائے، تو انہوں نے ایجادات کرکے جدید دنیا میں اپنا حصہ کیا ڈالنا ہے۔ کیونکہ یہ سارے اسی واہمے کا شکار ہیں کہ تبدیلی اوپر سے کہیں آتی ہے، کوئی آکر آسمان سے ان کو ٹھیک کردے گا ، یا کوئی حکمران آکر رول آف لاء جسٹس قائم کرے گا۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تبدیلی تب آئے گی جب یہ خود تبدیل ہوں گے۔ اوپر سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔۔
ہاں ایک ایسا معاشرہ جس میں بحثیت مجموعی مالی ابتری نہ ہو، ایسے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت امن اور سکون سے رہنا چاہے گی، لوگوں کی اکثریت نہ دوسرے کا مال لوٹے گی اور نہ چاہے گی کہ دوسرے ان کا مال لوٹیں۔ (ہاں ایک اقلیت موجود رہے گی جو جرائم پیشہ اور شرپسند حرکات پر مائل رہے گی، مگر اس کو معاشرے کی اکثریت کنٹرول کرلے گی) ایسے معاشرے سے جو جج، پولیس والے، اور سیاستدان نکل کرر آئیں گے ان کیلئے ایسے معاشرے کو مزید بہتر کرنا بہت آسان ہوگا۔ ایسے معاشرے میں جسٹس اور رول آف لاء بھی قائم کرنا آسان ہوگا۔ بہ نسبت پہلے والے معاشرے کے۔

یہ امریکی نفسیات دان ابراہم میسلو کی پیش کردہ ہائرارکی آف نیڈز ہے۔ جس کو انسانی نفسیات کو سمجھنے میں خاص مقام حاصل ہے۔ اور یہ کامن سینس کی بات بھی ہے۔ اس کے مطابق انسان کی سب سے پہلی ضرورت خوراک، پانی، پناہ اور کپڑے وغیرہ ہیں۔ جب یہ ضرورت پوری ہوجائے تو پھر وہ اپنی سیفٹی اور سیکورٹی چاہتا ہے۔ اس کے بعد اگلے مرحلے میں وہ معاشرتی تعلقات قائم کرتا ہے۔ جب یہ تینوں ضروریات پوری ہوجائیں پھر وہ اپنی قابلیت کو بروئے کار لاکر اچیومنٹس حاصل کرتا ہے، دنیا میں کانٹری بیوٹ کرتا ہے، نئی ایجادات کرتا ہے۔ اور سب سے اوپر والے مرحلے پر بہت کم لوگ پہنچتے ہیں جو کہ سیلف ایکچولائزیشن کا مرحلہ ہے، اس مرحلے پر انسان دنیا پر اور اپنے وجود پر سوالات اٹھاتا ہے، فلسفی نئے فلسفے تراشتے ہیں، دنیا کو بہتر کرنے کے اصول وضع کرتے ہیں۔
مسلم معاشروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ روزی روٹی اور تحفظ کے مرحلوں سے ہی نہیں نکل پائے، تو انہوں نے ایجادات کرکے جدید دنیا میں اپنا حصہ کیا ڈالنا ہے۔ کیونکہ یہ سارے اسی واہمے کا شکار ہیں کہ تبدیلی اوپر سے کہیں آتی ہے، کوئی آکر آسمان سے ان کو ٹھیک کردے گا ، یا کوئی حکمران آکر رول آف لاء جسٹس قائم کرے گا۔ ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ تبدیلی تب آئے گی جب یہ خود تبدیل ہوں گے۔ اوپر سے کوئی تبدیلی نہیں آتی۔۔