QaiserMirza
Chief Minister (5k+ posts)
-:ایرانی صدر کا دورہِ پاکستان:-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انیس سو پینسٹھ میں جب بھارت کے ساتھ جنگ کا ماحول بن رہا تھا حالات انتہائی کشیدہ تھے اور دوسری طرف ایران بھی جس کا ہمیشہ سے جھکاؤ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی طرف رہا ہے وہ بھی پاکستان کا شدید مخالف تھا تو اس خوفناک صورتحال میں کہ ایک طرف بھارت سے ہماری جنگ لگ جائے اور پیچھے سے ایران کہیں ہماری پیٹھ میں چھرا نہ گھونپ دے ایوب خان جو اس وقت صدر پاکستان تھے انہوں نے اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایران بھیجا جو ایرانیوں کے داماد بھی تھے بھٹو سے ایوب خان نے کہا کہ جاؤ اور شاہ ایران کے پاس اور جس طرح بھی وہ راضی ہوتا ہے اسے راضی کرو اور پاکستان کے خلاف ایران کے حملے سے بچنے کی تدبیر کرو
بھٹو صاحب ایران گئے اور انہوں نے شاہ ایران سے جا کے کہا کہ اپ کیا چاہتے ہیں تو اس پر شاہ ایران نے دو باتیں کی پہلی بات سیندک کے حوالے سے سیندک کا وہ علاقہ جہاں پر کاپر کے اور قیمتی معدنیات کے ذخائر ہیں اس کا وہ بڑا حصہ جہاں پر زیادہ ذخائر ہیں ایران نے اس پہ نشان لگا کے کہا کہ یہ آپ ہمیں دیں سیندک کا علاقہ شروع سے متنازہ چل رہا تھا تو بھٹو صاحب نے شاہ ایران کی یہ بات مان لی اور دوسری شرط شاہ ایران نے بھٹو صاحب کے ساتھ یہ رکھی کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنی سرحد کے قریب سے بلوچستان کے اندر سے تیل نہیں نکال سکتا اور ایران پاکستان کی سرحد کے قریب سے اپنے بلوچستان سے جو ایران کے اندر کا ہے وہاں سے تیل نکالے گا بھٹو صاحب نے یہ شرط بھی مان لی اور 30 سال تک کا یہ معاہدہ طے پایا کہ 30 سال تک پاکستان اپنے بلوچستان سے تیل نہیں نکالے گا ایران پاکستان کی سرحد کے قریب سے تیل نکال سکے گا اور تیل کا معاملہ اس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک جگہ سے نکالا جائے تو بہہ کر دور دور سے تیل وہاں ا جاتا ہے تو ہوا یہ کہ ایران نے تیل نکالنا شروع کر دیا
پاکستان کا تیل بہ کر زمین کے اندر اندر ایران کی طرف جاتا ہے اور ایران وہی تیل نکالتا ہے اور سستا تیل ہے ایران کا جس کے بارے ہمارے ہاں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایران سے پاکستان سستا تیل کیوں نہیں خریدتا اور یہ وہی تیل ہے جس کی سمگلنگ ایران پاکستان کی طرف کرتا ہے جس کی ویڈیوز اور تصویریں ہم سوشل میڈیا پر اکثر دیکھتے رہتے ہیں
یہ معاہدہ 30 سال تک تھا پھر اگلے 30 سالوں میں کبھی کوئی ایرانی سربراہ حکومت پاکستان نہیں آیا 1965 سے 30 سال کے بعد 1995 میں اس وقت کے ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی پاکستان تشریف لائے اور اس وقت کی پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے جو ایرانیوں کی نواسی تھیں ان سے اس معاہدے کی مزید 30 سال کے لیے توثیق کروا لی گئی تو اب پھر اس معاہدے کے 30 سال پورے ہونے جا رہے ہیں 2025 میں تو اصولی طور پر تو ایران کے صدر کو 2025 میں پاکستان انا تھا لیکن وہ ایک سال قبل ہی اگئے کیونکہ اج کل پھر بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کرسی صدارت پر براجمان ہیں اور پاکستان کی ایک بڑی شخصیت وزیر داخلہ بھی ایران نواز ہیں تو ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پاکستان تشریف لائے ہیں اور اسی معاہدے کو مزید اگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی تو میری پاکستان کے محب وطن لوگوں سے گزارش ہے کہ اب مزید اس معاہدے کی توثیق نہیں ہونی چاہیے اس کو اگے نہیں بڑھا نا چاہیے ہم اپنا تیل نکال سکیں ہماری ضرورت ہے ہم باہر سے مہنگا تیل خریدتے ہیں جبکہ ہمارا تیل ایران مفت میں نکالے جا رہا ہے اور الٹا ہمیں ہی وہ سمگل کر کے فروخت کرتا ہے تو اس پر پاکستان کے مقتدر حلقوں اور محب وطن لوگوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے ۔
بھٹو صاحب ایران گئے اور انہوں نے شاہ ایران سے جا کے کہا کہ اپ کیا چاہتے ہیں تو اس پر شاہ ایران نے دو باتیں کی پہلی بات سیندک کے حوالے سے سیندک کا وہ علاقہ جہاں پر کاپر کے اور قیمتی معدنیات کے ذخائر ہیں اس کا وہ بڑا حصہ جہاں پر زیادہ ذخائر ہیں ایران نے اس پہ نشان لگا کے کہا کہ یہ آپ ہمیں دیں سیندک کا علاقہ شروع سے متنازہ چل رہا تھا تو بھٹو صاحب نے شاہ ایران کی یہ بات مان لی اور دوسری شرط شاہ ایران نے بھٹو صاحب کے ساتھ یہ رکھی کہ پاکستان ایران کے ساتھ اپنی سرحد کے قریب سے بلوچستان کے اندر سے تیل نہیں نکال سکتا اور ایران پاکستان کی سرحد کے قریب سے اپنے بلوچستان سے جو ایران کے اندر کا ہے وہاں سے تیل نکالے گا بھٹو صاحب نے یہ شرط بھی مان لی اور 30 سال تک کا یہ معاہدہ طے پایا کہ 30 سال تک پاکستان اپنے بلوچستان سے تیل نہیں نکالے گا ایران پاکستان کی سرحد کے قریب سے تیل نکال سکے گا اور تیل کا معاملہ اس طرح ہوتا ہے کہ جب ایک جگہ سے نکالا جائے تو بہہ کر دور دور سے تیل وہاں ا جاتا ہے تو ہوا یہ کہ ایران نے تیل نکالنا شروع کر دیا
پاکستان کا تیل بہ کر زمین کے اندر اندر ایران کی طرف جاتا ہے اور ایران وہی تیل نکالتا ہے اور سستا تیل ہے ایران کا جس کے بارے ہمارے ہاں بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایران سے پاکستان سستا تیل کیوں نہیں خریدتا اور یہ وہی تیل ہے جس کی سمگلنگ ایران پاکستان کی طرف کرتا ہے جس کی ویڈیوز اور تصویریں ہم سوشل میڈیا پر اکثر دیکھتے رہتے ہیں
یہ معاہدہ 30 سال تک تھا پھر اگلے 30 سالوں میں کبھی کوئی ایرانی سربراہ حکومت پاکستان نہیں آیا 1965 سے 30 سال کے بعد 1995 میں اس وقت کے ایرانی صدر ہاشمی رفسنجانی پاکستان تشریف لائے اور اس وقت کی پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو سے جو ایرانیوں کی نواسی تھیں ان سے اس معاہدے کی مزید 30 سال کے لیے توثیق کروا لی گئی تو اب پھر اس معاہدے کے 30 سال پورے ہونے جا رہے ہیں 2025 میں تو اصولی طور پر تو ایران کے صدر کو 2025 میں پاکستان انا تھا لیکن وہ ایک سال قبل ہی اگئے کیونکہ اج کل پھر بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کرسی صدارت پر براجمان ہیں اور پاکستان کی ایک بڑی شخصیت وزیر داخلہ بھی ایران نواز ہیں تو ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پاکستان تشریف لائے ہیں اور اسی معاہدے کو مزید اگے بڑھانے کی کوشش کی جائے گی تو میری پاکستان کے محب وطن لوگوں سے گزارش ہے کہ اب مزید اس معاہدے کی توثیق نہیں ہونی چاہیے اس کو اگے نہیں بڑھا نا چاہیے ہم اپنا تیل نکال سکیں ہماری ضرورت ہے ہم باہر سے مہنگا تیل خریدتے ہیں جبکہ ہمارا تیل ایران مفت میں نکالے جا رہا ہے اور الٹا ہمیں ہی وہ سمگل کر کے فروخت کرتا ہے تو اس پر پاکستان کے مقتدر حلقوں اور محب وطن لوگوں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے ۔
قرآن کریم میں اللّٰہ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے ۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا بِمَا جَآءَکُمۡ مِّنَ الۡحَقِّ۔
اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! میرے اور ( خود ) اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ بناؤ تم تو دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں