ہمارے ہاں پچھلے کچھ عرصے سے سیاست میں ریاستِ مدینہ کی تکرار بہت زیادہ ہے۔ عام لوگ چونکہ زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے، زیادہ پڑھتے لکھتے نہیں تو ان کو لگتا ہے کہ ریاستِ مدینہ آج کی جدید مغربی ریاستوں کی طرح شاید بہت کمال ریاست تھی۔ کیا واقعی ایسا تھا؟ آج ہم مذہبی جذبات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ذرا عقلی اعتبار سے ریاستِ مدینہ کا آج کی جدید مغربی ریاستوں کے ساتھ ہلکا سا موازنہ کرتے ہیں۔
ریاستِ مدینہ کا نام عام طور پر انصاف کے حوالے سے لیا جاتا ہے کہ مذکورہ ریاست انصاف کا شاہکار تھی۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ انصاف پر مبنی ریاست کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو رنگ، نسل، مذہب کی تفریق کے بغیر برابر ٹریٹ کرے۔ ریاستِ مدینہ میں یہ برابری نہیں تھی۔ ریاستِ مدینہ میں مسلمان پہلے درجے کے شہری تھے اور غیر مسلم دوسرے درجے کے شہری۔ ریاستِ مدینہ میں کوئی بھی غیر مسلم ریاست کا حکمران نہیں بن سکتا ، چاہے وہ ریاست کا جتنا بھی وفادار ہو۔ جبکہ آج کی جدید مغربی ریاستوں میں آپ کو یہ تفریق نہیں ملے گی۔ ان ریاستوں میں ہر شہری چاہے اس کا جو بھی مذہب ہو برابر کا شہری تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان ریاستوں میں کسی بھی مذہب / عقیدے / سوچ کا حامل شخص عوام کے ووٹ سے حکمران بن سکتا ہے۔
ریاستِ مدینہ کا دوسرا غیر منصفانہ اور صنفی امتیاز پر مبنی اصول یہ ہے کہ عورت ریاست کی حکمران نہیں ہوسکتی۔ عورت چاہے جتنی مرضی قابل، ذہین اور پڑھی لکھی ہو اس کو مردوں سے کم تر ہی سمجھا جاتا تھا اور اس کو حکمرانی کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جبکہ آج کی مغربی ریاستوں میں یہ تفریق بالکل نہیں ہے۔ عورت بھی حکمران بن سکتی ہے، کتنی ہی یورپی ریاستوں میں عورتیں حکمران ہیں اور تھیں۔
ریاستِ مدینہ کا تیسرا نا انصافی پر مبنی اصول یہ تھا کہ مسلمانوں کو تو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی، جبکہ غیر مسلموں کو محدود ۔ ایک اسلامی ریاست میں مسلمان تو اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کرسکتا ہے، مگر غیر مسلم نہیں۔ مزید برآں اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ آپ اسلام چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلیں تو ریاستِ مدینہ آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ریاستِ مدینہ میں ایسے شخص کی سزا موت ہے۔ اس کے مقابل آج کی جدید مغربی ریاستوں میں آپ کسی بھی مذہب کو اختیار کرسکتے ہیں، کسی بھی مذہب کو چھوڑ سکتے ہیں اور چاہیں تو کسی بھی مذہب کو اختیار نہ کریں۔
ریاستِ مدینہ شخصی آزادیوں کو بھی تسلیم نہیں کرتی تھی۔ آپ اگر شادی سے باہر کسی کے ساتھ جنسی فعل میں ملوث پائے جاتے ہیں یا شراب پیتے ہیں تو یہ قابلِ سزا جرم ہے۔ ریاست آپ کی ذاتی زندگی میں دخیل ہوتی ہے، آپ کا محاسبہ کرتی ہے اور آپ کو سزا دیتی ہے۔ جبکہ آج کی مہذب ریاستوں میں آپ کے جنسی افعال، شراب و شباب آپ کی ذاتی زندگی تصور کئے جاتے ہیں اور ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
ریاستِ مدینہ اور دورِ حاضر کی ترقی یافتہ ریاستوں میں اور بھی ان گنت فرق ہیں، مگر میں نے صرف وہ فرق گنوائے ہیں جو مذکورہ ریاست میں پائی جانے والی اصولی نا انصافیوں کو عیاں کرتے ہیں۔یہ وہ چند موٹے موٹے عوامل ہیں جو کسی بھی ریاست میں انصاف کیلئے ضروری ہیں کہ آپ تمام شہریوں کو برابر ٹریٹ کریں، ان کو مذہبی عقائد رکھنے یا نہ رکھنے کی آزادی دیں، عورتوں کو معاشرے کا برابر کا فرد تسلیم کریں، یہ آج کی جدید مغربی ریاستوں میں تو پائے جاتے ہیں، مگر ریاستِ مدینہ میں نہیں۔
یہ سب کہنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ بہت سے لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ آج کی یورپی ریاستیں ریاستِ مدینہ کے ماڈل پر بنی ہیں تو میں ان کی یہ غلط فہمی دور کردینا چاہتا ہوں کہ دونوں قسم کی ریاستوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر آپ کہیں ریاستِ مدینہ کا ذکر کررہے ہیں تو آپ کو کم از کم علم ہونا چاہئے کہ ریاست مدینہ کیا ہے ۔۔۔
ریاستِ مدینہ کا نام عام طور پر انصاف کے حوالے سے لیا جاتا ہے کہ مذکورہ ریاست انصاف کا شاہکار تھی۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ انصاف پر مبنی ریاست کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے تمام شہریوں کو رنگ، نسل، مذہب کی تفریق کے بغیر برابر ٹریٹ کرے۔ ریاستِ مدینہ میں یہ برابری نہیں تھی۔ ریاستِ مدینہ میں مسلمان پہلے درجے کے شہری تھے اور غیر مسلم دوسرے درجے کے شہری۔ ریاستِ مدینہ میں کوئی بھی غیر مسلم ریاست کا حکمران نہیں بن سکتا ، چاہے وہ ریاست کا جتنا بھی وفادار ہو۔ جبکہ آج کی جدید مغربی ریاستوں میں آپ کو یہ تفریق نہیں ملے گی۔ ان ریاستوں میں ہر شہری چاہے اس کا جو بھی مذہب ہو برابر کا شہری تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان ریاستوں میں کسی بھی مذہب / عقیدے / سوچ کا حامل شخص عوام کے ووٹ سے حکمران بن سکتا ہے۔
ریاستِ مدینہ کا دوسرا غیر منصفانہ اور صنفی امتیاز پر مبنی اصول یہ ہے کہ عورت ریاست کی حکمران نہیں ہوسکتی۔ عورت چاہے جتنی مرضی قابل، ذہین اور پڑھی لکھی ہو اس کو مردوں سے کم تر ہی سمجھا جاتا تھا اور اس کو حکمرانی کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔ جبکہ آج کی مغربی ریاستوں میں یہ تفریق بالکل نہیں ہے۔ عورت بھی حکمران بن سکتی ہے، کتنی ہی یورپی ریاستوں میں عورتیں حکمران ہیں اور تھیں۔
ریاستِ مدینہ کا تیسرا نا انصافی پر مبنی اصول یہ تھا کہ مسلمانوں کو تو مکمل مذہبی آزادی حاصل تھی، جبکہ غیر مسلموں کو محدود ۔ ایک اسلامی ریاست میں مسلمان تو اپنے مذہب کی تبلیغ و ترویج کرسکتا ہے، مگر غیر مسلم نہیں۔ مزید برآں اگر آپ مسلمان ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ آپ اسلام چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلیں تو ریاستِ مدینہ آپ کو اس کی اجازت نہیں دیتی۔ ریاستِ مدینہ میں ایسے شخص کی سزا موت ہے۔ اس کے مقابل آج کی جدید مغربی ریاستوں میں آپ کسی بھی مذہب کو اختیار کرسکتے ہیں، کسی بھی مذہب کو چھوڑ سکتے ہیں اور چاہیں تو کسی بھی مذہب کو اختیار نہ کریں۔
ریاستِ مدینہ شخصی آزادیوں کو بھی تسلیم نہیں کرتی تھی۔ آپ اگر شادی سے باہر کسی کے ساتھ جنسی فعل میں ملوث پائے جاتے ہیں یا شراب پیتے ہیں تو یہ قابلِ سزا جرم ہے۔ ریاست آپ کی ذاتی زندگی میں دخیل ہوتی ہے، آپ کا محاسبہ کرتی ہے اور آپ کو سزا دیتی ہے۔ جبکہ آج کی مہذب ریاستوں میں آپ کے جنسی افعال، شراب و شباب آپ کی ذاتی زندگی تصور کئے جاتے ہیں اور ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
ریاستِ مدینہ اور دورِ حاضر کی ترقی یافتہ ریاستوں میں اور بھی ان گنت فرق ہیں، مگر میں نے صرف وہ فرق گنوائے ہیں جو مذکورہ ریاست میں پائی جانے والی اصولی نا انصافیوں کو عیاں کرتے ہیں۔یہ وہ چند موٹے موٹے عوامل ہیں جو کسی بھی ریاست میں انصاف کیلئے ضروری ہیں کہ آپ تمام شہریوں کو برابر ٹریٹ کریں، ان کو مذہبی عقائد رکھنے یا نہ رکھنے کی آزادی دیں، عورتوں کو معاشرے کا برابر کا فرد تسلیم کریں، یہ آج کی جدید مغربی ریاستوں میں تو پائے جاتے ہیں، مگر ریاستِ مدینہ میں نہیں۔
یہ سب کہنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ بہت سے لوگ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ آج کی یورپی ریاستیں ریاستِ مدینہ کے ماڈل پر بنی ہیں تو میں ان کی یہ غلط فہمی دور کردینا چاہتا ہوں کہ دونوں قسم کی ریاستوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اگر آپ کہیں ریاستِ مدینہ کا ذکر کررہے ہیں تو آپ کو کم از کم علم ہونا چاہئے کہ ریاست مدینہ کیا ہے ۔۔۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/DKxzc7V/riast.jpg