Kashif Rafiq
Prime Minister (20k+ posts)
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ! جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ہمیشہ جونئیر ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی مخالفت کرتے ہوئے سینیارٹی کے اصول پر زور دیا ہے جبکہ آج جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لاہور ہائیکورٹ کے ایک جونئیر جج کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کر دی ہے !
https://twitter.com/x/status/1799127789918101633
تازہ ترین اطلاعات کیمطابق نو رکنی جوڈیشل کمیشن نے جمعے کے روز ناصرف تین ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کی تھی بلکہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے کیلئے سینیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر موجود جسٹس عالیہ نیلم کے نام پر بھی غور کیا
کیونکہ سینیارٹی لسٹ میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر موجود جسٹس شجاعت اور جسٹس باقر نجفی کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جج تعیناتی کی مخالفت جوڈیشل کمیشن کے تمام ممبران نے متفقہ طور پر کی تھی لہٰذا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سینیارٹی کے اصول کو نظر انداز نہیں کیا کیونکہ تکنیکی طور پر جسٹس شجاعت اور جسٹس باقر نجفی پر عدم اعتماد کے بعد سینیارٹی لسٹ میں جسٹس شاہد بلال اور جسٹس عالیہ نیلم کا آپشن ہی باقی تھا
جسٹس شاہد بلال کو سپریم لانے کا فیصلہ کیا گیا گیا تو سینیارٹی میں چیف جسٹس کے عہدے کیلئے جسٹس عالیہ نیلم کا ہی آپشن بچتا ہے
جوڈیشل کمیشن کیجانب سے دونوں سینیئر ججز کے ناموں کو مسترد نہ کرنے کے باوجود اگر چیف جسٹس چوتھے نمبر پر موجود جسٹس شاہد بلال کی سفارش کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ جانتے بوجھتے سینیارٹی کے اصول کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا جبکہ اب ثابت ہو چکا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے
https://twitter.com/x/status/1799820557698916524
جونیئر جج کیجانب سے سینیئر ججز کو سپرسیڈ کرنے کی صورت میں سینیئر ججز کے پاس اخلاقی طور پر مستعفیٰ ہونے کا آپشن ہی باقی رہتا ہے
سنیارٹی لسٹ میں موجود جج جب بطور جج دستیاب ہو تو جوڈیشل کمیشن کے اس پر عدم اعتماد کا کیا مطلب؟ کیاکمیشن یہ قرار دے رہا ہے کہ وہ شخص جج رہنے کے قابل نہیں؟ بہتر ہوتا پھر کمیشن وجوہات بھی لکھ کر سپریم جوڈیشل کونسل کو ان ججز کو برخاست کرنے کی سفارش بھی کرتا ورنہ یہ بہت کمزور لاجک ہے
https://twitter.com/x/status/1799828075808731489
https://twitter.com/x/status/1799127789918101633
تازہ ترین اطلاعات کیمطابق نو رکنی جوڈیشل کمیشن نے جمعے کے روز ناصرف تین ججز کی سپریم کورٹ میں تعیناتی کی سفارش کی تھی بلکہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے عہدے کیلئے سینیارٹی لسٹ میں پانچویں نمبر پر موجود جسٹس عالیہ نیلم کے نام پر بھی غور کیا
کیونکہ سینیارٹی لسٹ میں دوسرے اور تیسرے نمبر پر موجود جسٹس شجاعت اور جسٹس باقر نجفی کی بطور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جج تعیناتی کی مخالفت جوڈیشل کمیشن کے تمام ممبران نے متفقہ طور پر کی تھی لہٰذا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سینیارٹی کے اصول کو نظر انداز نہیں کیا کیونکہ تکنیکی طور پر جسٹس شجاعت اور جسٹس باقر نجفی پر عدم اعتماد کے بعد سینیارٹی لسٹ میں جسٹس شاہد بلال اور جسٹس عالیہ نیلم کا آپشن ہی باقی تھا
جسٹس شاہد بلال کو سپریم لانے کا فیصلہ کیا گیا گیا تو سینیارٹی میں چیف جسٹس کے عہدے کیلئے جسٹس عالیہ نیلم کا ہی آپشن بچتا ہے
جوڈیشل کمیشن کیجانب سے دونوں سینیئر ججز کے ناموں کو مسترد نہ کرنے کے باوجود اگر چیف جسٹس چوتھے نمبر پر موجود جسٹس شاہد بلال کی سفارش کرتے تو ہم کہہ سکتے تھے کہ جانتے بوجھتے سینیارٹی کے اصول کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا جبکہ اب ثابت ہو چکا کہ حقیقت اس کے برعکس ہے
https://twitter.com/x/status/1799820557698916524
جونیئر جج کیجانب سے سینیئر ججز کو سپرسیڈ کرنے کی صورت میں سینیئر ججز کے پاس اخلاقی طور پر مستعفیٰ ہونے کا آپشن ہی باقی رہتا ہے
سنیارٹی لسٹ میں موجود جج جب بطور جج دستیاب ہو تو جوڈیشل کمیشن کے اس پر عدم اعتماد کا کیا مطلب؟ کیاکمیشن یہ قرار دے رہا ہے کہ وہ شخص جج رہنے کے قابل نہیں؟ بہتر ہوتا پھر کمیشن وجوہات بھی لکھ کر سپریم جوڈیشل کونسل کو ان ججز کو برخاست کرنے کی سفارش بھی کرتا ورنہ یہ بہت کمزور لاجک ہے
https://twitter.com/x/status/1799828075808731489
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/laxz3Eq.jpeg