محمد علی جناح، اقبال اور دیگر مسلم رہنماؤں نے آج سے ستر، اسی سال پہلے جس ملک کی بنیاد رکھی، وہ اول دن سے ایک ناکام ریاست تھا، کیونکہ اس کی بنیاد ہی غلط تھی۔ اس کی بنیاد صرف ایک نظریے پر رکھی گئی تھی کہ ہم الگ قوم ہیں، ہم ہندوؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ (حالانکہ یہ بھی بہت بڑا جھوٹ تھا، کیونکہ صدیوں تک مسلمان اور ہندو ایک ساتھ رہتے آئے تھے)۔ اس کے علاوہ جناح صاحب کے پاس کوئی نظریہ نہیں تھا کہ جو ملک وہ بنانے جارہے ہیں اس کا آئین کیسا ہوگا، وہ ایک مذہبی ریاست ہوگا یا ایک سیکولر ریاست، اس کا معاشی نظام کیا ہوگا، کیا یہ ایک کمیونسٹ یا سوشلسٹ ریاست ہوگی یا پھر کیپٹلسٹ۔۔ اس کے مقابلے میں آپ کانگریس کے رہنماؤں کو دیکھیں تو انہوں نے ہندوستان کے آئین کا خاکہ بھی تیار کرلیا تھا اور وہ اس بارے میں بھی کلیئر تھے کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہوگی۔ مگر ادھر ہمارے رہنما انہوں نے ایک مبہم بیان دینا کافی سمجھا کہ چودہ سو سال پہلے ہمارا آئین طے ہوچکا ہے لہذا ہمیں کسی اور آئین کی ضرورت نہیں۔ اسی بیان سے واضح ہے کہ جناح اور اقبال وغیرہ کو رتی برابر علم نہیں تھا کہ جدید ریاستیں کیا ہوتی ہیں، جمہوریت کیا ہے، سوشل کانٹریکٹ کیا ہوتا ہے اور پرانے زمانے کے کسی نظریے کے ساتھ ان کو نتھی نہیں کیا جاسکتا۔
آپ کو جناح صاحب کی ایک کتاب نہیں ملے گی، ایک مضمون نہیں ملے گا جس میں انہوں نے پاکستان کے بارے میں کوئی گائیڈلائن دی ہو، کوئی خاکہ تیار کیا ہو یا کچھ بھی سوچا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ ہندوؤں سے الگ زمین کا ایک ٹکڑا لے لیا تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اسی طرح کی اقبال کی سوچ تھی۔ انہوں نے خطبہ الہ آباد میں صرف اسی پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ رہنا چاہئے ، بس یہ ہوجائے تو ترقی کی ساری منازل طے ہوجائیں گی۔
جناح اور اقبال نے جس بے سمت ریاست کی بنیاد رکھی، آج اس کا ہندوستان کے ساتھ موازنہ کریں، ہر لحاظ سے پاکستان پیچھے ہے۔ معیشت کو دیکھ لیں، جو چیز انڈیا میں 100 روپے میں ملتی ہے، وہ ہمارے ہاں سات ، آٹھ سو روپے میں مل رہی ہے۔ پاکستان میں سب سے گئی گزری گاڑی آلٹو تیس لاکھ روپے میں مل رہی ہے جبکہ انڈیا میں یہ گاڑی تین چار لاکھ روپے میں مل جاتی ہے۔ انڈیا میں آٹا تیس روپے کلو مل رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں ڈیڑھ سو روپے کلو، انڈیا میں ڈالر 83 روپے کا ہے جبکہ پاکستان میں 300 روپے کے قریب۔ معیشت کو ایک طرف رکھیں، معاشرتی لحاظ سے دیکھیں ہمارا معاشرہ بد امنی کی مثال بن چکا ہے۔ ہر پاکستانی یہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہے۔ ابھی کل ہی معروف اداکار راشد محمود بھاری بھرکم بجلی کا بل آنے پر کہہ رہا تھا کہ میں غلط ملک میں پیدا ہوگیا ہوں، خدا مجھے اٹھا لے۔
کیا وجہ ہے کہ جناح اور اقبال کی قائم کردہ یہ ریاست اس بری طرح ناکام ہوگئی۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی سوچ غلط تھی۔ وہ سارے مسائل کی جڑ ہندوؤں کے ساتھ رہنے کو سمجھ رہے تھے، جبکہ مسئلہ یہ نہیں تھا، مسئلہ یہ تھا کہ مسلمان پرانے زمانے کی سوچ کو لے کر چل رہے تھے، وہ دوسری قوموں کے ساتھ ضم ہونے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے معاشرت، معیشت، سیاست ہر معاملے میں مذہب کو آگے رکھا ہوا تھا، صرف ایک سرسید خان تھا جنہوں نے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے جگہ جگہ کالج اور یونیورسٹیز کھولیں اور مسلمانوں کو تعلیم کی طرف دھکیلا۔ دوسری طرف جناح اور اقبال تھے، وہ خود تو مغربی یونیورسٹیز سے پڑھ آئے مگر انہوں نے قوم کو کبھی تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش نہیں کی۔
پاکستان کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان جدید ریاستوں کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مسلمان عوام میں مذہبی سوچ کی وجہ سے خلافت اور ملوکیت سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے کیونکہ پوری اسلامی تاریخ میں وہ یہی پڑھتے آئے ہیں۔ جمہوریت ان کیلئے ایک بالکل نئی چیز ہے جو کہ اسلام کے اصولوں سے مطابقت بھی نہیں رکھتی۔ مزید برآں جمہوریت کی کامیابی کیلئے کچھ اور لوازمات بھی ضروری ہیں، جن میں سیکولرزم سب سے اہم ہے، جو کہ اسلامی معاشروں میں تو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک جمہوری معاشرے کے لوگوں کو یہ بھی سمجھ ہونی چاہئے کہ جمہوریت کے تحت ان کا اپنے حکمرانوں سے رشتہ حاکم اور محکوم یا بادشاہ اور رعایا کا نہیں بلکہ فریقین کا ہے جس میں وہ دونوں ایک سوشل کانٹریکٹ کے تحت بندھے ہیں۔ اور دونوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس سوشل کانٹریکٹ کی پاسداری کریں۔ ایک مسلم معاشرے کے لوگوں کو ککھ پتا نہیں ہوتا کہ سوشل کانٹریکٹ کیا بلا ہے ، جب یہ علم ہی نہیں تو وہ اس کانٹریکٹ کی پاسداری کیا کریں گے یا حکمرانوں سے پاسداری کا مطالبہ کیا کریں گے۔۔ لہذا مسلم معاشروں میں جمہوریت کا ناکام ہونا تو طے ہے۔ اس کی عملی مثال دیکھنی ہے تو 50 سے اوپر اسلامی ممالک ہیں، سب کو کھنگال کر دیکھ لیں، ایک ملک بھی صحیح معنوں میں جمہوری نہیں ملے گا۔۔
قصہ مختصر جناح اور اقبال کو مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اس ریاست کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر ان کے پاس کوئی وژن، کوئی خاکہ نہیں تھا تو انہیں اس پنگے میں پڑنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ محض اپنی سیاست کیلئے انہوں نے کروڑوں لوگوں کی زندگی برباد کردی۔ آج اگر پاکستان کی عوام متحدہ ہندوستان میں ایک ہندو حکمران کی چھتر چھایا تلے رہ رہی ہوتی تو بہت ہی بہتر حالوں میں ہوتی۔آج یوں پورے معاشرے میں چیخم چنگھاڑ نہ مچی ہوتی نہ ہی لوگ ملک سے بھاگ نکلنے کیلئے اتنے اتاولے ہورہے ہوتے۔۔۔
آپ کو جناح صاحب کی ایک کتاب نہیں ملے گی، ایک مضمون نہیں ملے گا جس میں انہوں نے پاکستان کے بارے میں کوئی گائیڈلائن دی ہو، کوئی خاکہ تیار کیا ہو یا کچھ بھی سوچا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ ہندوؤں سے الگ زمین کا ایک ٹکڑا لے لیا تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اسی طرح کی اقبال کی سوچ تھی۔ انہوں نے خطبہ الہ آباد میں صرف اسی پر زور دیا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ رہنا چاہئے ، بس یہ ہوجائے تو ترقی کی ساری منازل طے ہوجائیں گی۔
جناح اور اقبال نے جس بے سمت ریاست کی بنیاد رکھی، آج اس کا ہندوستان کے ساتھ موازنہ کریں، ہر لحاظ سے پاکستان پیچھے ہے۔ معیشت کو دیکھ لیں، جو چیز انڈیا میں 100 روپے میں ملتی ہے، وہ ہمارے ہاں سات ، آٹھ سو روپے میں مل رہی ہے۔ پاکستان میں سب سے گئی گزری گاڑی آلٹو تیس لاکھ روپے میں مل رہی ہے جبکہ انڈیا میں یہ گاڑی تین چار لاکھ روپے میں مل جاتی ہے۔ انڈیا میں آٹا تیس روپے کلو مل رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں ڈیڑھ سو روپے کلو، انڈیا میں ڈالر 83 روپے کا ہے جبکہ پاکستان میں 300 روپے کے قریب۔ معیشت کو ایک طرف رکھیں، معاشرتی لحاظ سے دیکھیں ہمارا معاشرہ بد امنی کی مثال بن چکا ہے۔ ہر پاکستانی یہاں سے بھاگ جانا چاہتا ہے۔ ابھی کل ہی معروف اداکار راشد محمود بھاری بھرکم بجلی کا بل آنے پر کہہ رہا تھا کہ میں غلط ملک میں پیدا ہوگیا ہوں، خدا مجھے اٹھا لے۔
کیا وجہ ہے کہ جناح اور اقبال کی قائم کردہ یہ ریاست اس بری طرح ناکام ہوگئی۔ وجہ یہ ہے کہ ان کی سوچ غلط تھی۔ وہ سارے مسائل کی جڑ ہندوؤں کے ساتھ رہنے کو سمجھ رہے تھے، جبکہ مسئلہ یہ نہیں تھا، مسئلہ یہ تھا کہ مسلمان پرانے زمانے کی سوچ کو لے کر چل رہے تھے، وہ دوسری قوموں کے ساتھ ضم ہونے کو تیار نہیں تھے۔ انہوں نے معاشرت، معیشت، سیاست ہر معاملے میں مذہب کو آگے رکھا ہوا تھا، صرف ایک سرسید خان تھا جنہوں نے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اور جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ اس نے جگہ جگہ کالج اور یونیورسٹیز کھولیں اور مسلمانوں کو تعلیم کی طرف دھکیلا۔ دوسری طرف جناح اور اقبال تھے، وہ خود تو مغربی یونیورسٹیز سے پڑھ آئے مگر انہوں نے قوم کو کبھی تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش نہیں کی۔
پاکستان کی ناکامی کی ایک اور بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان جدید ریاستوں کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مسلمان عوام میں مذہبی سوچ کی وجہ سے خلافت اور ملوکیت سے ہم آہنگی پائی جاتی ہے کیونکہ پوری اسلامی تاریخ میں وہ یہی پڑھتے آئے ہیں۔ جمہوریت ان کیلئے ایک بالکل نئی چیز ہے جو کہ اسلام کے اصولوں سے مطابقت بھی نہیں رکھتی۔ مزید برآں جمہوریت کی کامیابی کیلئے کچھ اور لوازمات بھی ضروری ہیں، جن میں سیکولرزم سب سے اہم ہے، جو کہ اسلامی معاشروں میں تو گناہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک جمہوری معاشرے کے لوگوں کو یہ بھی سمجھ ہونی چاہئے کہ جمہوریت کے تحت ان کا اپنے حکمرانوں سے رشتہ حاکم اور محکوم یا بادشاہ اور رعایا کا نہیں بلکہ فریقین کا ہے جس میں وہ دونوں ایک سوشل کانٹریکٹ کے تحت بندھے ہیں۔ اور دونوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اس سوشل کانٹریکٹ کی پاسداری کریں۔ ایک مسلم معاشرے کے لوگوں کو ککھ پتا نہیں ہوتا کہ سوشل کانٹریکٹ کیا بلا ہے ، جب یہ علم ہی نہیں تو وہ اس کانٹریکٹ کی پاسداری کیا کریں گے یا حکمرانوں سے پاسداری کا مطالبہ کیا کریں گے۔۔ لہذا مسلم معاشروں میں جمہوریت کا ناکام ہونا تو طے ہے۔ اس کی عملی مثال دیکھنی ہے تو 50 سے اوپر اسلامی ممالک ہیں، سب کو کھنگال کر دیکھ لیں، ایک ملک بھی صحیح معنوں میں جمہوری نہیں ملے گا۔۔
قصہ مختصر جناح اور اقبال کو مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا مطالبہ کرنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ اس ریاست کا مستقبل کیا ہوگا۔ اگر ان کے پاس کوئی وژن، کوئی خاکہ نہیں تھا تو انہیں اس پنگے میں پڑنا ہی نہیں چاہئے تھا۔ محض اپنی سیاست کیلئے انہوں نے کروڑوں لوگوں کی زندگی برباد کردی۔ آج اگر پاکستان کی عوام متحدہ ہندوستان میں ایک ہندو حکمران کی چھتر چھایا تلے رہ رہی ہوتی تو بہت ہی بہتر حالوں میں ہوتی۔آج یوں پورے معاشرے میں چیخم چنگھاڑ نہ مچی ہوتی نہ ہی لوگ ملک سے بھاگ نکلنے کیلئے اتنے اتاولے ہورہے ہوتے۔۔۔
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/590tJht/images.jpg
Last edited: