ایران میں حماس چیف اسرائیل ہانیہ کی موت کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ ایران کیلئے اسماعیل ہانیہ کوئی عام مہمان نہیں تھا، وہ ایران کیلئے ہیڈ آف دی سٹیٹ کی طرح تھا اور اسی طرح کی اسے وہاں سیکورٹی اور عزت دی گئی۔ دیکھا جائے تو وہ ایران کا خاص الخاص مہمان تھا۔ ایسے میں اسرائیل نے بغیر کوئی شور شرابہ، بم دھماکہ کئے اسے اتنے آرام سے ٹپکا دیا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ ایران اس کے بعد سے سکتے کی کیفیت میں ہے۔ ابھی تک وہ دنیا کو بتا ہی نہیں پایا کہ یہ سب ہوا کیسے۔
ایران جو بڑھکیں مارتے نہیں تھکتا کہ ہم امریکہ کو یہ کردیں گے، اہم اسرائیل کو تباہ کردیں گے، اس کی اوقات یہ نکلی ہے کہ اپنے ملک میں آئے ہوئے خاص الخاص مہمان کی حفاظت نہیں کرسکا اور اس کی لاش لے کر بیٹھا ہے۔ یہ ایران کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ پوری دنیا میں اب ایران کا کوئی بھی اتحادی ملک اس میں اپنی کسی اہم شخصیت کو نہیں بھیجے گا کہ یہ لوگ تو اس قابل بھی نہیں کہ ہمیں سیکورٹی فراہم کرسکیں۔
دوسری طرف داد دیں اسرائیل کو کہ اس نے کتنی صفائی سے اسماعیل ہانیہ کا پتا صاف کیا اور اسرائیل نےیہ پہلی بار نہیں کیا۔وہ پہلے بھی کئی بار اسی طرح اپنے دشمنوں کو ٹارگٹ کرکے ٹھکانے لگا چکا ہے۔ا سرائیل کے لوگ دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے پیچھے ان کی وہ پلاننگ اور تگ و دو ہے جو وہ ہر بچے کو پیدا کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ وہ بہت کم بچے پیدا کرتے ہیں اور ایک ایک بچے کے پیدا ہونے سے بڑے ہونے تک اس طرح اس کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں جیسے وہ کوئی موتی ہو۔ وہ تعداد پر نہیں استعداد پر فوکس کرتے ہیں۔ ماں کے حاملہ ہوتے ہی وہ اس کا خاص خیال رکھتے ہیں، اس کو بہترین خوراک دیتے ہیں، اس کے آس پاس کا ماحول خوشگوار رکھتے ہیں تاکہ وہ خوش رہے۔ نتیجتاً پیدا ہونے والا بچہ بھی صحت مند اور ذہین ہوتا ہے، پھر اس بچے کی پرورش تعلیم و تربیت بھی بہترین کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ نوبل پرائز اسی قوم کے پاس ہیں۔
اس کے برعکس آپ مسلمانوں کو دیکھ لیں، بچوں پر بچے پیدا کرتے جاتے ہیں، نہ ماں کی صحت کا خیال نہ بچے کی صحت کا خیال، نہ یہ سوچ کہ بچے کو پوری خوراک، پوری تعلیم ملے گی یا نہیں، بس کوڑے کے ڈھیر کی طرح گندگی بڑھاتے جاتے ہیں ، عورت ایک بچہ جن کرفارغ ہوتی ہے تو اس کے پیٹ میں دوسرا بچہ ڈال دیتے ہیں، عورت کو تو مسلم سماج میں بچہ پیدا کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اس سوچ کے نتیجے میں آج مسلمانوں کی حالت دیکھ لیں، دنیا میں کسی جگہ بھی کوڑے کے ڈھیر سے زیادہ ان کی اوقات نہیں ہے۔ ہر جگہ ذلیل ہوتے پھرتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کا نام و نشان نہیں ہے، ابھی تک بیشتر اسلامی ممالک روزی روٹی اور امن و امان کے چکر سے ہی نہیں نکل پائے۔ جدید دنیا سے یہ کچرا لوگ آج بھی کئی صدیاں پیچھے ہیں۔
مسلم دنیا کو چاہئے کہ اسرائیل سے سبق سیکھیں، جانوروں کی طرح بچے پیدا کرنے کی بجائے، انسانوں کی طرح کم بچے پیدا کریں۔ ایک ایک بچے کی تعلیم اور خوراک پر بھرپور توجہ دیں۔ اس کو دنیا کی جدید تعلیم دیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں۔ آپ گدھوں کی طرح اپنی تعداد بڑھاتے جائیں گے تو دنیا میں آپ کی کوئی اوقات نہیں ہوگی۔ اپنی تعداد پر نہیں استعداد پر فوکس کریں۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو اسی طرح کتوں کی طرح مارے جاتے رہیں گے، کوئی آپ کا رونا دھونا نہیں سنے گا۔ نہ ہی کسی کو آپ پر ترس آئے گا۔
ایران جو بڑھکیں مارتے نہیں تھکتا کہ ہم امریکہ کو یہ کردیں گے، اہم اسرائیل کو تباہ کردیں گے، اس کی اوقات یہ نکلی ہے کہ اپنے ملک میں آئے ہوئے خاص الخاص مہمان کی حفاظت نہیں کرسکا اور اس کی لاش لے کر بیٹھا ہے۔ یہ ایران کیلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ پوری دنیا میں اب ایران کا کوئی بھی اتحادی ملک اس میں اپنی کسی اہم شخصیت کو نہیں بھیجے گا کہ یہ لوگ تو اس قابل بھی نہیں کہ ہمیں سیکورٹی فراہم کرسکیں۔
دوسری طرف داد دیں اسرائیل کو کہ اس نے کتنی صفائی سے اسماعیل ہانیہ کا پتا صاف کیا اور اسرائیل نےیہ پہلی بار نہیں کیا۔وہ پہلے بھی کئی بار اسی طرح اپنے دشمنوں کو ٹارگٹ کرکے ٹھکانے لگا چکا ہے۔ا سرائیل کے لوگ دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں اور اس کے پیچھے ان کی وہ پلاننگ اور تگ و دو ہے جو وہ ہر بچے کو پیدا کرنے کیلئے کرتے ہیں۔ وہ بہت کم بچے پیدا کرتے ہیں اور ایک ایک بچے کے پیدا ہونے سے بڑے ہونے تک اس طرح اس کی پرورش اور تربیت کرتے ہیں جیسے وہ کوئی موتی ہو۔ وہ تعداد پر نہیں استعداد پر فوکس کرتے ہیں۔ ماں کے حاملہ ہوتے ہی وہ اس کا خاص خیال رکھتے ہیں، اس کو بہترین خوراک دیتے ہیں، اس کے آس پاس کا ماحول خوشگوار رکھتے ہیں تاکہ وہ خوش رہے۔ نتیجتاً پیدا ہونے والا بچہ بھی صحت مند اور ذہین ہوتا ہے، پھر اس بچے کی پرورش تعلیم و تربیت بھی بہترین کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ نوبل پرائز اسی قوم کے پاس ہیں۔
اس کے برعکس آپ مسلمانوں کو دیکھ لیں، بچوں پر بچے پیدا کرتے جاتے ہیں، نہ ماں کی صحت کا خیال نہ بچے کی صحت کا خیال، نہ یہ سوچ کہ بچے کو پوری خوراک، پوری تعلیم ملے گی یا نہیں، بس کوڑے کے ڈھیر کی طرح گندگی بڑھاتے جاتے ہیں ، عورت ایک بچہ جن کرفارغ ہوتی ہے تو اس کے پیٹ میں دوسرا بچہ ڈال دیتے ہیں، عورت کو تو مسلم سماج میں بچہ پیدا کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی اس سوچ کے نتیجے میں آج مسلمانوں کی حالت دیکھ لیں، دنیا میں کسی جگہ بھی کوڑے کے ڈھیر سے زیادہ ان کی اوقات نہیں ہے۔ ہر جگہ ذلیل ہوتے پھرتے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کا نام و نشان نہیں ہے، ابھی تک بیشتر اسلامی ممالک روزی روٹی اور امن و امان کے چکر سے ہی نہیں نکل پائے۔ جدید دنیا سے یہ کچرا لوگ آج بھی کئی صدیاں پیچھے ہیں۔
مسلم دنیا کو چاہئے کہ اسرائیل سے سبق سیکھیں، جانوروں کی طرح بچے پیدا کرنے کی بجائے، انسانوں کی طرح کم بچے پیدا کریں۔ ایک ایک بچے کی تعلیم اور خوراک پر بھرپور توجہ دیں۔ اس کو دنیا کی جدید تعلیم دیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھیں۔ آپ گدھوں کی طرح اپنی تعداد بڑھاتے جائیں گے تو دنیا میں آپ کی کوئی اوقات نہیں ہوگی۔ اپنی تعداد پر نہیں استعداد پر فوکس کریں۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو اسی طرح کتوں کی طرح مارے جاتے رہیں گے، کوئی آپ کا رونا دھونا نہیں سنے گا۔ نہ ہی کسی کو آپ پر ترس آئے گا۔