
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آئینی اور عمومی بینچز کے دائرہ اختیار پر سوالات اس وقت سامنے آئے جب جی ایچ کیو کے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) نے آئینی تشریح کا معاملہ اٹھاتے ہوئے ایک درخواست جمع کرائی۔ یہ معاملہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے سامنے زیر سماعت تھا، جس نے این ایل سی انتظامیہ کے خلاف 50 درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق این ایل سی کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ اس کیس میں آئین کے آرٹیکل 240، 260، اور 212 کی تشریح شامل ہے، اس لیے معاملے کو آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔تاہم، جسٹس شاہ کے دو رکنی بینچ نے درخواست گزار کے وکیل، راجہ سیف الرحمٰن کی اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
https://twitter.com/x/status/1857382539264246202
یہ معاملہ این ایل سی کی اس اپیل کے گرد گھومتا ہے جس میں فیڈرل سروس ٹریبونل (ایف ایس ٹی) کے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا جس کے تحت این ایل سی ملازمین کو سول سرونٹس کا درجہ دیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا کہ ایف ایس ٹی نے آئینی آرٹیکل 240 اور 242 کو مدنظر رکھے بغیر ملازمین کو سول سرونٹ قرار دیا، جو کہ ایک غلط تشریح تھی۔
درخواست میں کہا گیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 191-اے (4) کا اطلاق ہوتا ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ میں زیر التوا تمام اپیلیں فوری طور پر آئینی بینچ کو منتقل ہو جاتی ہیں۔مزید کہا گیا کہ "26ویں ترمیم، قانون کے طے شدہ اصولوں، اور ایف ایس ٹی کی جانب سے آرٹیکل 212، 260، 240، اور 242 کی غلط تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے، حتمی فیصلہ سنانے سے گریز کیا جائے اور معاملے کو آئینی بینچ کے سامنے دوبارہ سماعت کے لیے پیش کیا جائے۔"
یہ بھی ذکر کیا گیا کہ حکومت نے حال ہی میں سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ میں ترمیم کی ہے۔ اس کے سیکشن 2-اے کے تحت اگر کسی معاملے میں یہ سوال پیدا ہو کہ آیا اسے آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، تو آرٹیکل 191-اے کی شق 4 کے تحت تشکیل شدہ کمیٹی ایک واضح حکم کے ذریعے اس کا تعین کرے گی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست پر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد، قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ آئینی تشریح کے حوالے سے اہم نظیر قائم کر سکتا ہے۔- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/7jmansoorvsNLCSc.png