
اسلام آباد: سابق وزیرِاعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاڑہ چنار میں حالیہ دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اڈیالہ جیل میں دوران گفتگو ان واقعات کو "انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت" قرار دیتے ہوئے سیکیورٹی اداروں اور حکومت کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
عمران خان نے کہا، “پاڑہ چنار میں دہشتگردی / ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں قیمتی جانوں کا ضیاع انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایجنسیز جن کا کام شہریوں کو دہشتگردی سے بچانا ہے انہیں مسلسل ڈھائی سال سے سیاسی انتقام لینے پر لگایا گیا ہے۔ پولیس اور فوجی جوان روزانہ شہید ہو رہے ہیں لیکن سیکیورٹی اداروں کی توجہ تحریک انصاف کو کچلنے پر مرکوز ہے جس کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال روز بروز بگڑتی جا رہی ہے اور دہشتگردی کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا چکا ہے۔”
https://twitter.com/x/status/1859968812717617527
انہوں نے پولیس کے نظام پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا، “پولیس کے آئی جیز بھی میرٹ کی بجائے سیاسی بنیادوں پر لگائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے پولیسنگ سسٹم بھی تباہ ہو چکا ہے۔”
عمران خان نے دہشتگردی کے حل کے لیے صرف عسکری کارروائیوں کو ناکافی قرار دیا اور کہا، “میرا اسٹیبلشمنٹ اور جعلی حکومت کو پیغام ہے کہ دہشتگردی کا معاملہ صرف عسکری آپریشنز سے حل ہونے والا نہیں ہے یہ ایک حساس مسئلہ ہے جس کے لیے سیاسی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے، مگر یہاں کسی کے پاس کوئی ایسی موثر حکمت عملی موجود نہیں جس سے اس مسئلے کا خاتمہ کیا جا سکے۔ جعلی حکومت کی نااہلی اس معاملے میں بھی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔”
انہوں نے افغانستان کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “سوچنا چاہیے کہ جب افغانستان میں پاکستان مخالف حکومت تھی تو اتنی دہشتگردی کیوں نہیں ہو رہی تھی جتنی پچھلے دو سال سے ہو رہی ہے؟ دہشتگردی کے خلاف اور مغربی سرحد کو کنٹرول کرنے کے لیے تحریک انصاف کے پاس پورا ایکشن پلان موجود ہے۔ اگر ہم حکومت میں دوبارہ آتے ہیں تو اس مسئلے کا حل نکالنا ممکن ہے۔”
عمران خان نے ان مسائل کے حل کے لیے ایک جامع سیاسی اور عسکری حکمت عملی پر زور دیا اور موجودہ حکومت پر اس حوالے سے سخت تنقید کی۔
https://twitter.com/x/status/1859973736717549878
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/8imranakhankhon parchananr.png
Last edited by a moderator: