پی ٹی آئی کا کل کا احتجاج منسوخ کرنے پر غور

Milkyway

Senator (1k+ posts)

1413624_5712255_pp_akhbar.jpg

پی ٹی آئی کا کل کا احتجاج منسوخ کرنے پر غور،

تحریک انصاف اور حکومت کے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں، اسٹیبلشمنٹ

انصار عباسی​

اسلام آباد :…پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے گزشتہ رات اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے اور بشریٰ بی بی کے پیدا کردہ تنازع پر غور کیا۔​

گزشتہ رات ہونے والی بات چیت میں شامل پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق، کمیٹی کے ارکان کی اکثریت عدالت کے فیصلے کی روشنی میں 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے کے حق میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہئے۔​

پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ آپشن (احتجاج کی کال ختم کرنے اور بات چیت میں آگے بڑھنے) عمران خان کو پیش کیے جائیں تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کریں۔ سیاسی کمیٹی کی سفارش کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفد عمران خان سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل گیا تاہم ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔​

بعد ازاں وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے احتجاجی مارچ کے معاملے پر بات چیت کیلئے پشاور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔ پی ٹی آئی رہنما اور علی امین گنڈا پور کے مشیر بیرسٹر سیف نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگرچہ وہ سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں، لیکن عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے پارٹی میں بات چیت ہو رہی ہے۔ بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان سے پیدا ہونے والے سنگین تنازع پر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی کمیٹی کے بیشتر ارکان خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں بات کی۔ تاہم وہ بشریٰ بی بی کے بیان کو کھل کر مسترد کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔​

کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ بشریٰ بی بی کے بیان سے فاصلہ اختیار کریں اور خاتون کو اپنا دفاع کرنے دینا چاہئے۔ تاہم، اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا۔​

دریں اثنا ءملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا ہے کہ اس کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ایک ذریعے نے جمعہ کو دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے یا پھر سمجھے جانے والے اس تاثر کی واضح تردید کی کہ گویا یہ پس پردہ رابطے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کسی اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی رابطہ ہے۔​

ذریعے نے مزید کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ فوج کسی سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی۔ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔​

ذریعے نے رواں سال مئی میں آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بیان کردہ موقف بدستور قائم ہے۔ مئی میں ان کی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ کسی ڈیل کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔​

انہوں نے واضح کیا تھا کہ فوج غیر سیاسی ہے اور ہر حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات آئین اور قانون کے مطابق ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی سیاسی گروپ اپنی ہی فوج پر حملہ کرتا ہے تو کوئی اس کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا، ایسے انتشار پسند گروہ کیلئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگے، نفرت کی سیاست ترک اور تعمیری سیاست کا وعدہ کرے۔​

انہوں نے زور دیا تھا کہ کوئی بھی صورت ہو، بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے، فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔​

دی نیوز نے ایک سینئر دفاعی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے 2 نومبر کو یہ بھی خبر دی تھی کہ فوج کی پالیسی، جس کا اعلان پہلے بھی کیا جا چکا ہے، بدستور برقرار ہے اور اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی ریلیف یا رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں بشمول حکومت کے نمائندوں سے بات کریں، فوج یا اس کے سربراہ سے نہیں۔​

 

Azpir

Senator (1k+ posts)

1413624_5712255_pp_akhbar.jpg

پی ٹی آئی کا کل کا احتجاج منسوخ کرنے پر غور،

تحریک انصاف اور حکومت کے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں، اسٹیبلشمنٹ

انصار عباسی​

اسلام آباد :…پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے گزشتہ رات اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے اور بشریٰ بی بی کے پیدا کردہ تنازع پر غور کیا۔​

گزشتہ رات ہونے والی بات چیت میں شامل پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق، کمیٹی کے ارکان کی اکثریت عدالت کے فیصلے کی روشنی میں 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے کے حق میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہئے۔​

پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ آپشن (احتجاج کی کال ختم کرنے اور بات چیت میں آگے بڑھنے) عمران خان کو پیش کیے جائیں تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کریں۔ سیاسی کمیٹی کی سفارش کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفد عمران خان سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل گیا تاہم ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔​

بعد ازاں وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے احتجاجی مارچ کے معاملے پر بات چیت کیلئے پشاور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔ پی ٹی آئی رہنما اور علی امین گنڈا پور کے مشیر بیرسٹر سیف نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگرچہ وہ سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں، لیکن عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے پارٹی میں بات چیت ہو رہی ہے۔ بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان سے پیدا ہونے والے سنگین تنازع پر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی کمیٹی کے بیشتر ارکان خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں بات کی۔ تاہم وہ بشریٰ بی بی کے بیان کو کھل کر مسترد کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔​

کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ بشریٰ بی بی کے بیان سے فاصلہ اختیار کریں اور خاتون کو اپنا دفاع کرنے دینا چاہئے۔ تاہم، اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا۔​

دریں اثنا ءملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا ہے کہ اس کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ایک ذریعے نے جمعہ کو دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے یا پھر سمجھے جانے والے اس تاثر کی واضح تردید کی کہ گویا یہ پس پردہ رابطے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کسی اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی رابطہ ہے۔​

ذریعے نے مزید کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ فوج کسی سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی۔ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔​

ذریعے نے رواں سال مئی میں آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بیان کردہ موقف بدستور قائم ہے۔ مئی میں ان کی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ کسی ڈیل کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔​

انہوں نے واضح کیا تھا کہ فوج غیر سیاسی ہے اور ہر حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات آئین اور قانون کے مطابق ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی سیاسی گروپ اپنی ہی فوج پر حملہ کرتا ہے تو کوئی اس کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا، ایسے انتشار پسند گروہ کیلئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگے، نفرت کی سیاست ترک اور تعمیری سیاست کا وعدہ کرے۔​

انہوں نے زور دیا تھا کہ کوئی بھی صورت ہو، بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے، فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔​

دی نیوز نے ایک سینئر دفاعی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے 2 نومبر کو یہ بھی خبر دی تھی کہ فوج کی پالیسی، جس کا اعلان پہلے بھی کیا جا چکا ہے، بدستور برقرار ہے اور اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی ریلیف یا رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں بشمول حکومت کے نمائندوں سے بات کریں، فوج یا اس کے سربراہ سے نہیں۔​

Is dheeli toi walay munafiq e azam tout e azam be ha harami. Cantt ka Bharwa.
 

digitalzygot1

Minister (2k+ posts)

1413624_5712255_pp_akhbar.jpg

پی ٹی آئی کا کل کا احتجاج منسوخ کرنے پر غور،

تحریک انصاف اور حکومت کے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں، اسٹیبلشمنٹ

انصار عباسی​

اسلام آباد :…پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے گزشتہ رات اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے اور بشریٰ بی بی کے پیدا کردہ تنازع پر غور کیا۔​

گزشتہ رات ہونے والی بات چیت میں شامل پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق، کمیٹی کے ارکان کی اکثریت عدالت کے فیصلے کی روشنی میں 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے کے حق میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہئے۔​

پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ آپشن (احتجاج کی کال ختم کرنے اور بات چیت میں آگے بڑھنے) عمران خان کو پیش کیے جائیں تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کریں۔ سیاسی کمیٹی کی سفارش کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفد عمران خان سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل گیا تاہم ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔​

بعد ازاں وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے احتجاجی مارچ کے معاملے پر بات چیت کیلئے پشاور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔ پی ٹی آئی رہنما اور علی امین گنڈا پور کے مشیر بیرسٹر سیف نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگرچہ وہ سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں، لیکن عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے پارٹی میں بات چیت ہو رہی ہے۔ بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان سے پیدا ہونے والے سنگین تنازع پر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی کمیٹی کے بیشتر ارکان خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں بات کی۔ تاہم وہ بشریٰ بی بی کے بیان کو کھل کر مسترد کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔​

کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ بشریٰ بی بی کے بیان سے فاصلہ اختیار کریں اور خاتون کو اپنا دفاع کرنے دینا چاہئے۔ تاہم، اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا۔​

دریں اثنا ءملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا ہے کہ اس کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ایک ذریعے نے جمعہ کو دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے یا پھر سمجھے جانے والے اس تاثر کی واضح تردید کی کہ گویا یہ پس پردہ رابطے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کسی اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی رابطہ ہے۔​

ذریعے نے مزید کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ فوج کسی سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی۔ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔​

ذریعے نے رواں سال مئی میں آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بیان کردہ موقف بدستور قائم ہے۔ مئی میں ان کی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ کسی ڈیل کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔​

انہوں نے واضح کیا تھا کہ فوج غیر سیاسی ہے اور ہر حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات آئین اور قانون کے مطابق ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی سیاسی گروپ اپنی ہی فوج پر حملہ کرتا ہے تو کوئی اس کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا، ایسے انتشار پسند گروہ کیلئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگے، نفرت کی سیاست ترک اور تعمیری سیاست کا وعدہ کرے۔​

انہوں نے زور دیا تھا کہ کوئی بھی صورت ہو، بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے، فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔​

دی نیوز نے ایک سینئر دفاعی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے 2 نومبر کو یہ بھی خبر دی تھی کہ فوج کی پالیسی، جس کا اعلان پہلے بھی کیا جا چکا ہے، بدستور برقرار ہے اور اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی ریلیف یا رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں بشمول حکومت کے نمائندوں سے بات کریں، فوج یا اس کے سربراہ سے نہیں۔​

Fake news
 

Sarkash

Chief Minister (5k+ posts)

1413624_5712255_pp_akhbar.jpg

پی ٹی آئی کا کل کا احتجاج منسوخ کرنے پر غور،

تحریک انصاف اور حکومت کے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں، اسٹیبلشمنٹ

انصار عباسی​

اسلام آباد :…پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے گزشتہ رات اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے اور بشریٰ بی بی کے پیدا کردہ تنازع پر غور کیا۔​

گزشتہ رات ہونے والی بات چیت میں شامل پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق، کمیٹی کے ارکان کی اکثریت عدالت کے فیصلے کی روشنی میں 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے کے حق میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہئے۔​

پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ آپشن (احتجاج کی کال ختم کرنے اور بات چیت میں آگے بڑھنے) عمران خان کو پیش کیے جائیں تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کریں۔ سیاسی کمیٹی کی سفارش کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفد عمران خان سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل گیا تاہم ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔​

بعد ازاں وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے احتجاجی مارچ کے معاملے پر بات چیت کیلئے پشاور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔ پی ٹی آئی رہنما اور علی امین گنڈا پور کے مشیر بیرسٹر سیف نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگرچہ وہ سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں، لیکن عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے پارٹی میں بات چیت ہو رہی ہے۔ بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان سے پیدا ہونے والے سنگین تنازع پر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی کمیٹی کے بیشتر ارکان خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں بات کی۔ تاہم وہ بشریٰ بی بی کے بیان کو کھل کر مسترد کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔​

کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ بشریٰ بی بی کے بیان سے فاصلہ اختیار کریں اور خاتون کو اپنا دفاع کرنے دینا چاہئے۔ تاہم، اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا۔​

دریں اثنا ءملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا ہے کہ اس کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ایک ذریعے نے جمعہ کو دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے یا پھر سمجھے جانے والے اس تاثر کی واضح تردید کی کہ گویا یہ پس پردہ رابطے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کسی اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی رابطہ ہے۔​

ذریعے نے مزید کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ فوج کسی سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی۔ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔​

ذریعے نے رواں سال مئی میں آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بیان کردہ موقف بدستور قائم ہے۔ مئی میں ان کی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ کسی ڈیل کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔​

انہوں نے واضح کیا تھا کہ فوج غیر سیاسی ہے اور ہر حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات آئین اور قانون کے مطابق ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی سیاسی گروپ اپنی ہی فوج پر حملہ کرتا ہے تو کوئی اس کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا، ایسے انتشار پسند گروہ کیلئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگے، نفرت کی سیاست ترک اور تعمیری سیاست کا وعدہ کرے۔​

انہوں نے زور دیا تھا کہ کوئی بھی صورت ہو، بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے، فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔​

دی نیوز نے ایک سینئر دفاعی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے 2 نومبر کو یہ بھی خبر دی تھی کہ فوج کی پالیسی، جس کا اعلان پہلے بھی کیا جا چکا ہے، بدستور برقرار ہے اور اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی ریلیف یا رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں بشمول حکومت کے نمائندوں سے بات کریں، فوج یا اس کے سربراہ سے نہیں۔​

Milkyway Teri baji nay offer aise di hai kay bas sab soch rahey hain kay seedhay teri baji kay kothay par he jaein. Plastic surgery karwa kar aae hai tou mazay bhe full aaein gey 😂 😂 😂 😂
 

ProPakistanii

Senator (1k+ posts)

1413624_5712255_pp_akhbar.jpg

پی ٹی آئی کا کل کا احتجاج منسوخ کرنے پر غور،

تحریک انصاف اور حکومت کے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں، اسٹیبلشمنٹ

انصار عباسی​

اسلام آباد :…پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے گزشتہ رات اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے اور بشریٰ بی بی کے پیدا کردہ تنازع پر غور کیا۔​

گزشتہ رات ہونے والی بات چیت میں شامل پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق، کمیٹی کے ارکان کی اکثریت عدالت کے فیصلے کی روشنی میں 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے کے حق میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہئے۔​

پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ آپشن (احتجاج کی کال ختم کرنے اور بات چیت میں آگے بڑھنے) عمران خان کو پیش کیے جائیں تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کریں۔ سیاسی کمیٹی کی سفارش کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفد عمران خان سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل گیا تاہم ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔​

بعد ازاں وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے احتجاجی مارچ کے معاملے پر بات چیت کیلئے پشاور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔ پی ٹی آئی رہنما اور علی امین گنڈا پور کے مشیر بیرسٹر سیف نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگرچہ وہ سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں، لیکن عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے پارٹی میں بات چیت ہو رہی ہے۔ بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان سے پیدا ہونے والے سنگین تنازع پر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی کمیٹی کے بیشتر ارکان خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں بات کی۔ تاہم وہ بشریٰ بی بی کے بیان کو کھل کر مسترد کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔​

کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ بشریٰ بی بی کے بیان سے فاصلہ اختیار کریں اور خاتون کو اپنا دفاع کرنے دینا چاہئے۔ تاہم، اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا۔​

دریں اثنا ءملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا ہے کہ اس کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ایک ذریعے نے جمعہ کو دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے یا پھر سمجھے جانے والے اس تاثر کی واضح تردید کی کہ گویا یہ پس پردہ رابطے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کسی اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی رابطہ ہے۔​

ذریعے نے مزید کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ فوج کسی سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی۔ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔​

ذریعے نے رواں سال مئی میں آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بیان کردہ موقف بدستور قائم ہے۔ مئی میں ان کی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ کسی ڈیل کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔​

انہوں نے واضح کیا تھا کہ فوج غیر سیاسی ہے اور ہر حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات آئین اور قانون کے مطابق ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی سیاسی گروپ اپنی ہی فوج پر حملہ کرتا ہے تو کوئی اس کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا، ایسے انتشار پسند گروہ کیلئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگے، نفرت کی سیاست ترک اور تعمیری سیاست کا وعدہ کرے۔​

انہوں نے زور دیا تھا کہ کوئی بھی صورت ہو، بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے، فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔​

دی نیوز نے ایک سینئر دفاعی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے 2 نومبر کو یہ بھی خبر دی تھی کہ فوج کی پالیسی، جس کا اعلان پہلے بھی کیا جا چکا ہے، بدستور برقرار ہے اور اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی ریلیف یا رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں بشمول حکومت کے نمائندوں سے بات کریں، فوج یا اس کے سربراہ سے نہیں۔​

Aww sacred fauji baby. You're a product of generals pee drop
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)

1413624_5712255_pp_akhbar.jpg

پی ٹی آئی کا کل کا احتجاج منسوخ کرنے پر غور،

تحریک انصاف اور حکومت کے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں، اسٹیبلشمنٹ

انصار عباسی​

اسلام آباد :…پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے گزشتہ رات اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے اور بشریٰ بی بی کے پیدا کردہ تنازع پر غور کیا۔​

گزشتہ رات ہونے والی بات چیت میں شامل پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کے مطابق، کمیٹی کے ارکان کی اکثریت عدالت کے فیصلے کی روشنی میں 24 نومبر کے احتجاجی مارچ کو منسوخ کرنے کے حق میں تھی۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت سے بات چیت کو آگے بڑھنے دینا چاہئے۔​

پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ آپشن (احتجاج کی کال ختم کرنے اور بات چیت میں آگے بڑھنے) عمران خان کو پیش کیے جائیں تاکہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کریں۔ سیاسی کمیٹی کی سفارش کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کا وفد عمران خان سے ملاقات کیلئے اڈیالہ جیل گیا تاہم ان کی ملاقات نہ ہو سکی۔​

بعد ازاں وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے احتجاجی مارچ کے معاملے پر بات چیت کیلئے پشاور میں پارٹی رہنماؤں کا اجلاس طلب کیا۔ پی ٹی آئی رہنما اور علی امین گنڈا پور کے مشیر بیرسٹر سیف نے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگرچہ وہ سیاسی کمیٹی کے رکن نہیں، لیکن عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے پارٹی میں بات چیت ہو رہی ہے۔ بشریٰ بی بی کے سعودی عرب سے متعلق ویڈیو بیان سے پیدا ہونے والے سنگین تنازع پر پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیاسی کمیٹی کے بیشتر ارکان خوش نہیں تھے اور انہوں نے اس کی مخالفت میں بات کی۔ تاہم وہ بشریٰ بی بی کے بیان کو کھل کر مسترد کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے۔​

کچھ رہنماؤں نے مشورہ دیا کہ پی ٹی آئی کو چاہئے کہ وہ بشریٰ بی بی کے بیان سے فاصلہ اختیار کریں اور خاتون کو اپنا دفاع کرنے دینا چاہئے۔ تاہم، اس بات کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا۔​

دریں اثنا ءملٹری اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا ہے کہ اس کا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان ہونے والے پس پردہ رابطوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے وابستہ ایک ذریعے نے جمعہ کو دی نیوز سے بات کرتے ہوئے کچھ لوگوں کی جانب سے دیے جانے والے یا پھر سمجھے جانے والے اس تاثر کی واضح تردید کی کہ گویا یہ پس پردہ رابطے سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے کسی اقدام کا نتیجہ ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے درمیان کوئی رابطہ ہے۔​

ذریعے نے مزید کہا کہ ہمارا موقف واضح ہے کہ فوج کسی سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی۔ یہ سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بات کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔​

ذریعے نے رواں سال مئی میں آئی ایس پی آر کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ادارے کا بیان کردہ موقف بدستور قائم ہے۔ مئی میں ان کی پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ کسی ڈیل کے امکان کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فوج کا کوئی سیاسی کردار نہیں۔​

انہوں نے واضح کیا تھا کہ فوج غیر سیاسی ہے اور ہر حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات آئین اور قانون کے مطابق ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن اگر کوئی سیاسی گروپ اپنی ہی فوج پر حملہ کرتا ہے تو کوئی اس کے ساتھ بات چیت نہیں کرے گا، ایسے انتشار پسند گروہ کیلئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگے، نفرت کی سیاست ترک اور تعمیری سیاست کا وعدہ کرے۔​

انہوں نے زور دیا تھا کہ کوئی بھی صورت ہو، بات چیت سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونا چاہئے، فوج کا اس میں شامل ہونا مناسب نہیں۔​

دی نیوز نے ایک سینئر دفاعی ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے 2 نومبر کو یہ بھی خبر دی تھی کہ فوج کی پالیسی، جس کا اعلان پہلے بھی کیا جا چکا ہے، بدستور برقرار ہے اور اگر عمران خان اور پی ٹی آئی کوئی ریلیف یا رعایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں بشمول حکومت کے نمائندوں سے بات کریں، فوج یا اس کے سربراہ سے نہیں۔​

https://twitter.com/x/status/1859886036626846052
 

Azpir

Senator (1k+ posts)

یوتھیو ، یہ نومبر گھر میں رہو تو اچھا ہے

! نومبر دسمبر کی سوجن ۔۔۔ جلدی نہیں اُترتی

Gc8StZaWQAAsw1n
Yeh baat tuje Teri didiyan batati hon gi? Arabio k pass bhajta ha? Harami International Dala ban gya ha. Riyalo Mai tip leta ho ga bharway 😁
 

Back
Top