
اسلام آباد: سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے بھٹو ریفرنس پر ایک اہم اضافی نوٹ جاری کیا ہے۔ اس نوٹ میں انہوں نے جسٹس دراب پٹیل کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھٹو کیس میں جرأت مندی کے ساتھ اختلاف کیا اور ضیاء الحق کے عبوری آئین کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے یہ بھی وضاحت کی کہ جج کی بہادری کو بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے ذریعے پرکھا جا سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ آمرانہ دور میں، ججوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت عہدے پر ہونے میں نہیں بلکہ ان کی آزادی کی حفاظت میں ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آمرانہ مداخلتوں کا بروقت مقابلہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ اس میں تاخیر قانونی حکمرانی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے،سیاسی ٹرائلز میں قانونی نکات کے بجائےسابق حلیفوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے جنہیں بیان کیلئے دوران تفتیش مجبور کیا جاتا ہے. سیاسی ٹرائل میں عدلیہ برسراقتدار رجیم کو آلہ کار بنتی ہے۔
https://twitter.com/x/status/1861411357201178630
اس اضافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ عدلیہ کا کردار انصاف کا دفاع کرنا ہے اور اس ضمن میں دراندازیوں کی فوری مزاحمت اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ یہ نوٹ عہدے داروں اور دیگر اداروں کے سامنے عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، خاص کر ان وقتوں میں جب سیاسی اثر و رسوخ عدلیہ پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کا یہ بیان عدالتی آزادی، انصاف اور قانون کی بالادستی پر ایک مثبت عزم کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کی خود مختاری کے حوالے سے چیلنجز کا سامنا کیا جارہا ہے۔
دوسری جانب بھٹو ریفرنس پر جسٹس حسن اظہر رضوی کا 30 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کیا گیا ہے، جس میں انہوں نے بھٹو کے مقدمے کو ناانصافی کی ایک تلخ مثال قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مارشل لاء حکام کی خوشنودی کے لیے عدالتی فیصلے میں آئین اور قانون دونوں کا غلط استعمال کیا گیا۔
اس اضافی نوٹ میں جسٹس حسن اظہر رضوی نے مزید کہا کہ سیاسی ٹرائلز میں قانونی نکات کی بجائے سابق حلیفوں کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے، اور یہ بیانات اکثر اوقات دباؤ یا مجبور کیے جانے کے نتیجے میں دیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی ٹرائلز میں عدلیہ اکثر برسراقتدار حکومت کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے اور اس کے فیصلے ان کے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
https://twitter.com/x/status/1861767365555347831
- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/FhqYMGM/asda.jpg