جولائی 2013 میں مصر کی فوج نے جنرل السیسی کی قیادت میں پہلے منتخب جمہوری صدر محمد مرسی کا تختہ الٹا اور حکومت پر قبضہ کرلیا۔ مرسی کو گرفتار کرلیا گیا۔ اگرچہ مرسی کی حکومت سے عوام کو بہت شکایات تھیں مگر گرفتاری کے بعد بہت لوگ اس کیلئے سڑکوں پر نکلے۔ اگست 2013 کو قاہرہ میں عوام کا بہت بڑا جم غفیر نکل آیا اور دھرنا دے دیا کہ مرسی کی رہائی تک نہیں جائیں گے، اس دھرنے میں لوگوں کی تعداد 50ہزار سے 80 ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ سیکورٹی فورسز نےسخت آپریشن کیا اور مظاہرین کو بھگا دیا۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اس آپریشن میں 904 لوگ مارے گئے اور ہزاروں زخمی ہوئے۔ اس واقعے کو ربا مساکر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دھرنے کے خاتمے کے بعدپورے ملک میں خوف کی فضاء قائم ہوگئی اور مرسی کی موت تک کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا، وقتاً فوقتاً چھوٹے موٹے احتجاج کہیں کہیں ہوتے رہے، مگر فوجی حکومت نے انہیں با آسانی قابو کرلیا۔ گرفتاری کے ٹھیک چھ سال بعد 2019 کومرسی عدالت میں بیٹھے بیٹھے مرگیا۔
پاکستان میں عمران خان کا معاملہ مصر کے مرسی سے زیادہ مختلف نہیں۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کے جو سپورٹرز اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ لڑائی جھگڑے، دھرنوں اور مظاہروں سے عمران خان کو چھڑوا لیں گے، وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ عمران خان بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ مسلسل انتشار برپا کرکے فوج کو دبا لے گا اور نہ صرف رہا ہوگا بلکہ اقتدار بھی حاصل کرلے گا۔ عمران خان اور پی ٹی والے انتشار اور فساد سے اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ فوج نے اسلام آباد میں جتنی آسانی سے حالیہ دھرنا ناکام کیا ہے اور اس کے بعد پی ٹی آئی نے خود سینکڑوں لوگوں کے قتل کا جو بیانیہ پھیلا دیا ہے اس کے بعد لوگ اپنے گھر والوں، اپنی اولادوں، بھائیوں بندوں کو کسی بھی احتجاج اور دھرنے میں شامل ہونے سے روکیں گے۔ 26 نومبر کے بعد دھرنوں اور احتجاجوں کی موت ہوچکی، بالکل اسی طرح جس طرح قاہرہ میں اگست 2013 کے دھرنے کے خاتمے کے بعد مرسی کی موت تک کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں ہوا۔
اگر عمران خان نہیں چاہتا کہ وہ بھی فوج کے قبضے میں رہ کر مرسی کی طرح جیل میں ہی مارا جائے تو اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے۔ امن کا راستہ اپنائے اپنے صوبے کے پی پر توجہ دے ، اس کو ایک ماڈل صوبہ بنا کر دکھائے۔ بصورت دیگر پاکستانی فوج اسے بھی جیل میں رکھ رکھ کر مرسی کی طرح مار دے گی۔۔ اور فوج کیلئے یہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو مصر کو دیکھ لو، وہاں اس کا عملی مظاہرہ ہوچکا ہے، وہاں آج بھی السیسی حکمران ہے اور مرسی کب کا مرچکا ہے ۔ عوامی پاپولیرٹی مرسی کو بچا نہیں پائی۔
پاکستان میں عمران خان کا معاملہ مصر کے مرسی سے زیادہ مختلف نہیں۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کے جو سپورٹرز اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ لڑائی جھگڑے، دھرنوں اور مظاہروں سے عمران خان کو چھڑوا لیں گے، وہ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ عمران خان بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہے کہ وہ مسلسل انتشار برپا کرکے فوج کو دبا لے گا اور نہ صرف رہا ہوگا بلکہ اقتدار بھی حاصل کرلے گا۔ عمران خان اور پی ٹی والے انتشار اور فساد سے اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کررہے ہیں۔ فوج نے اسلام آباد میں جتنی آسانی سے حالیہ دھرنا ناکام کیا ہے اور اس کے بعد پی ٹی آئی نے خود سینکڑوں لوگوں کے قتل کا جو بیانیہ پھیلا دیا ہے اس کے بعد لوگ اپنے گھر والوں، اپنی اولادوں، بھائیوں بندوں کو کسی بھی احتجاج اور دھرنے میں شامل ہونے سے روکیں گے۔ 26 نومبر کے بعد دھرنوں اور احتجاجوں کی موت ہوچکی، بالکل اسی طرح جس طرح قاہرہ میں اگست 2013 کے دھرنے کے خاتمے کے بعد مرسی کی موت تک کوئی قابل ذکر احتجاج نہیں ہوا۔
اگر عمران خان نہیں چاہتا کہ وہ بھی فوج کے قبضے میں رہ کر مرسی کی طرح جیل میں ہی مارا جائے تو اس کے پاس ایک ہی راستہ ہے۔ امن کا راستہ اپنائے اپنے صوبے کے پی پر توجہ دے ، اس کو ایک ماڈل صوبہ بنا کر دکھائے۔ بصورت دیگر پاکستانی فوج اسے بھی جیل میں رکھ رکھ کر مرسی کی طرح مار دے گی۔۔ اور فوج کیلئے یہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔ اگر یقین نہیں آتا تو مصر کو دیکھ لو، وہاں اس کا عملی مظاہرہ ہوچکا ہے، وہاں آج بھی السیسی حکمران ہے اور مرسی کب کا مرچکا ہے ۔ عوامی پاپولیرٹی مرسی کو بچا نہیں پائی۔

- Featured Thumbs
- https://i.ibb.co/1m5H7Sr/morsi.jpg
Last edited: