عمران خان کیا تھا -- نوروں کی بڑھتی بغاوت کو ڈالی گئی ایک نتھ --- نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کچھ کم
بقول میاں عامر کے عمران تم بائیس چھوڑو چوالیس سال بھی سٹرگل کرتے رھتے - تم کچھ نہ ہوتے اگر نواز شریف باغی نہ ہوتا
عمران کی خصلت سے ایسٹیبلشمنٹ پہلے دن سے واقف تھی - کیا ہوا کہ جب جندال کو نواز شریف بھور بن لے گیا تو انہوں نے آپس میں کیا بات کی اس کو آئ ایس آئ سن نہیں سکی - یہ ایک بہت ہی برا گناہ تھا جو نواز شریف سے سرزد ہوا - اس وقت بلاول بس بچا سا تھا - مارکیٹ میں عمران کے علاوہ کوئی تھا نہیں اس لئے مجبورا نوروں کو سزا دینے کے لئے اسے ہی چنا گیا - اب اس کی کہانی ختم
واشنگٹن اور لندن کی سڑکوں پر کراۓ کی شہرت کے بعد کراۓ کی ذلت والے اشتہاری ٹرک بھی چل پڑے - پیسوں سے عمران کے لئے ٹرمپ کا دعوت نامہ بھی نہ خریدا جا سکا - نہ ہی ہاورڈ کی چانسلری ملی - ہمجنس پرست ریچرڈ گرینل سے عمرانیت کو فک آف بھی کہلوا دیا گیا - لندن کی سڑکوں کر عمرانیوں کو اگے بھگا کر پیچھے کتوں کی طرح ہوٹنگ اور بیزتی بھی کروانے کا رواج ڈال دیا گیا
کل صبح لندن سے پیسہ چوری کرنے کا فیصلہ بھی آنے کا امکان ہے
پھر اسے بھی کراۓ کے اشتہاری ٹرکوں پر خوب چلایا جاۓ گا
عمرانیو اب نوروں پر غصہ اتارنے کے لئے بلاول ہی بچا ہے یار - عمران فٹ کر لو اس میں
![]()
اب یہ جو بھی ڈنگا پھڑینگا عمراول بنا ہے اسی پر گزارا کر لو یار
مجھے پتا ہے بہت برا لگے گا تمہیں لیکن گزارا تو کرنا پڑے گا اب اور اس کو پوسٹ میرے آخری تھریڈوں میں سے ایک سمجھو
میں پٹواری اب اس کتے کام سے کنارہ کشی کر کے درویشی زندگی گزارنے پر غور فرما رہا ہوں
![]()
Sohail Shuja
عمران خان نے اپنی سیاست اور تم باندروں کا فورمیٹ ہی ایسا بنایا ہے کہ وہ نہیں تو کچھ نہیں
تو بیٹے - عمران تو اب نہیں -- تم کر لو جو کرنا ہے
مجھے سمجھ لگی ہے بھائی میرے - جو بات تمہیں سمجھ نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ عمران نہیں تو عمرانیات نہیں - اس میں پی ٹی آئی بھی آتی ہےراجہ تو کیا کہہ رہا ہے، میں کیا کہہ رہا ہوں
میں کہہ رہا ہوں کہ اگر اسٹبلشمنٹ کو سسٹم مائنس پی ٹی آئی چلانا ہے تو وہ سیٹ اپ ن لیگ اپنے بل بوتے پر نہیں بنا سکے گی۔ اس کو لازماً پی پی کی ضرورت ہو گی۔ تو بلاول کے باغیانہ بیانات کا کیا موقع محل بنے گا؟
سمجھ لگی کچھ۔۔۔
عمران خان کیا تھا -- نوروں کی بڑھتی بغاوت کو ڈالی گئی ایک نتھ --- نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کچھ کم
بقول میاں عامر کے عمران تم بائیس چھوڑو چوالیس سال بھی سٹرگل کرتے رھتے - تم کچھ نہ ہوتے اگر نواز شریف باغی نہ ہوتا
عمران کی خصلت سے ایسٹیبلشمنٹ پہلے دن سے واقف تھی - کیا ہوا کہ جب جندال کو نواز شریف بھور بن لے گیا تو انہوں نے آپس میں کیا بات کی اس کو آئ ایس آئ سن نہیں سکی - یہ ایک بہت ہی برا گناہ تھا جو نواز شریف سے سرزد ہوا - اس وقت بلاول بس بچا سا تھا - مارکیٹ میں عمران کے علاوہ کوئی تھا نہیں اس لئے مجبورا نوروں کو سزا دینے کے لئے اسے ہی چنا گیا - اب اس کی کہانی ختم
واشنگٹن اور لندن کی سڑکوں پر کراۓ کی شہرت کے بعد کراۓ کی ذلت والے اشتہاری ٹرک بھی چل پڑے - پیسوں سے عمران کے لئے ٹرمپ کا دعوت نامہ بھی نہ خریدا جا سکا - نہ ہی ہاورڈ کی چانسلری ملی - ہمجنس پرست ریچرڈ گرینل سے عمرانیت کو فک آف بھی کہلوا دیا گیا - لندن کی سڑکوں کر عمرانیوں کو اگے بھگا کر پیچھے کتوں کی طرح ہوٹنگ اور بیزتی بھی کروانے کا رواج ڈال دیا گیا
کل صبح لندن سے پیسہ چوری کرنے کا فیصلہ بھی آنے کا امکان ہے
پھر اسے بھی کراۓ کے اشتہاری ٹرکوں پر خوب چلایا جاۓ گا
عمرانیو اب نوروں پر غصہ اتارنے کے لئے بلاول ہی بچا ہے یار - عمران فٹ کر لو اس میں
![]()
اب یہ جو بھی ڈنگا پھڑینگا عمراول بنا ہے اسی پر گزارا کر لو یار
مجھے پتا ہے بہت برا لگے گا تمہیں لیکن گزارا تو کرنا پڑے گا اب اور اس کو پوسٹ میرے آخری تھریڈوں میں سے ایک سمجھو
میں پٹواری اب اس کتے کام سے کنارہ کشی کر کے درویشی زندگی گزارنے پر غور فرما رہا ہوں
![]()
Sohail Shuja
میاں عامر محمود اسٹیبلشمنٹ کا ٹاؤٹ ہے اسی لئے وہ بھی عوام کو جاہل کم عقل سمجھتا ہے
عمران خان عوام کی طاقت سے پندرہ بیس سال پہلے ہی آجاتا اگر بیغیرت مشرف شریفوں زرداریوں کو ایک دو باریاں مزید لینے دیتا اور مارشل لا نہ لگاتا
پھٹ کے باہر آ گئی ہے پٹواریوں کی۔۔۔ان جاہلوں جو سمجھ نہیں آ رہی کے بول اور لکھ کیا رہے ہیں۔۔۔۔کمبخت عمران خان ان کے لیے ایک عذاب نازل ہوا ہے۔۔۔![]()
اور اس کو پوسٹ میرے آخری تھریڈوں میں سے ایک سمجھو
میں پٹواری اب اس کتے کام سے کنارہ کشی کر کے درویشی زندگی گزارنے پر غور فرما رہا ہوں
![]()
Sohail Shuja
ہم تسی اتنا مجبور کرسو تے سانوں ارادہ بدلی کرنا پے جاسی
عمران خان نے اپنی سیاست اور تم باندروں کا فورمیٹ ہی ایسا بنایا ہے کہ وہ نہیں تو کچھ نہیں
تو بیٹے - عمران تو اب نہیں -- تم کر لو جو کرنا ہے
عوام اتنی بیوقوف نہیں جتنا اسٹیبلشمنٹ اور اس کے ٹاؤٹس سمجھتے ہیں![]()
ھچھا ؟؟؟![]()
Doulay shah kay baygherat chuhay kisi kay bolnay say kiya faraq parta hay? Kiya yeah PTI official hay?
عمران خان کیا تھا -- نوروں کی بڑھتی بغاوت کو ڈالی گئی ایک نتھ --- نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کچھ کم
بقول میاں عامر کے عمران تم بائیس چھوڑو چوالیس سال بھی سٹرگل کرتے رھتے - تم کچھ نہ ہوتے اگر نواز شریف باغی نہ ہوتا
عمران کی خصلت سے ایسٹیبلشمنٹ پہلے دن سے واقف تھی - کیا ہوا کہ جب جندال کو نواز شریف بھور بن لے گیا تو انہوں نے آپس میں کیا بات کی اس کو آئ ایس آئ سن نہیں سکی - یہ ایک بہت ہی برا گناہ تھا جو نواز شریف سے سرزد ہوا - اس وقت بلاول بس بچا سا تھا - مارکیٹ میں عمران کے علاوہ کوئی تھا نہیں اس لئے مجبورا نوروں کو سزا دینے کے لئے اسے ہی چنا گیا - اب اس کی کہانی ختم
واشنگٹن اور لندن کی سڑکوں پر کراۓ کی شہرت کے بعد کراۓ کی ذلت والے اشتہاری ٹرک بھی چل پڑے - پیسوں سے عمران کے لئے ٹرمپ کا دعوت نامہ بھی نہ خریدا جا سکا - نہ ہی ہاورڈ کی چانسلری ملی - ہمجنس پرست ریچرڈ گرینل سے عمرانیت کو فک آف بھی کہلوا دیا گیا - لندن کی سڑکوں کر عمرانیوں کو اگے بھگا کر پیچھے کتوں کی طرح ہوٹنگ اور بیزتی بھی کروانے کا رواج ڈال دیا گیا
کل صبح لندن سے پیسہ چوری کرنے کا فیصلہ بھی آنے کا امکان ہے
پھر اسے بھی کراۓ کے اشتہاری ٹرکوں پر خوب چلایا جاۓ گا
عمرانیو اب نوروں پر غصہ اتارنے کے لئے بلاول ہی بچا ہے یار - عمران فٹ کر لو اس میں
![]()
اب یہ جو بھی ڈنگا پھڑینگا عمراول بنا ہے اسی پر گزارا کر لو یار
مجھے پتا ہے بہت برا لگے گا تمہیں لیکن گزارا تو کرنا پڑے گا اب اور اس کو پوسٹ میرے آخری تھریڈوں میں سے ایک سمجھو
میں پٹواری اب اس کتے کام سے کنارہ کشی کر کے درویشی زندگی گزارنے پر غور فرما رہا ہوں
![]()
Sohail Shuja
اور تم جیسے جنرل کے ڈفروں کے لیے ایک سچائی ہے۔۔۔۔۔اپنی پرانی یہ پچھلے سال کی بکوآس دیکھو تو تمہیں خود سے شرم آئے گی ۔۔۔تمہاری بكواس کے مطابق عمران خان کا تو فاوجی ٹریل ہو گا اور اب تمہارا جنرل اس کی پارٹی سے ۱-۱ بات کر رہا ہے۔۔۔۔۔لانٹی ڈفربئی قسمیں
عمران خان ان کے لیے ایک عذاب نازل ہوا ہے
سے بڑی سچائی آج کل کے دنوں میں
تیرا تجزیہ کافی حد تک ٹھیک ہے، لیکن اصل بات اس سے بھی پہلے سے شروع ہوتی ہے۔
اصل مسئلہ بینظیر کر کے گئی تھی ان کے لیئے، جس جرم کی پاداش میں اسے سرِعام مروا دیا گیا۔
بینظیر نے اپنی نوّے کی دہائی کی سیاست سے سیکھ لیا تھا کہ کیسے اسٹیبلشمنٹ ان دونوں کے کندھوں پر باری باری ہاتھ رکھ کر اپنا الّو سیدھا کرتی ہے۔ لہٰذا اس نے ایک فارمولا تیار کیا، جس کے بعد یہاں مارشل لاء کے لیئے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔
اس نے چارٹر آف ڈیموکریسی اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اس مداخلت کا نوّے فیصد قلع قمع کردیا تھا۔ لیکن زردادری حرامی نے پیچھے سے اسے بھی چونا لگا دیا۔ بات یہی ہوئی تھی کہ جو مرضی ہوجائے، یہ دونوں بڑی پارٹیاں یعنی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی آپس میں جھگڑے ڈال کر اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار پر شب خون نہیں مارنے دیں گے۔
اسکی سزا بینظیر کو تو فوراً ہی مل گئی، اور بعد میں بھی اسمبلی دس سال تک نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ پانچ پانچ سال اپنی حکومت کی۔ حالانکہ دونوں مرتبہ اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کے ذریعے ان کے وزیر اعظم بھی تبدیل کروائے، لیکن ان کی حکومت کو پھر بھی گھر نہیں بھیج سکی۔
تو اصل کریڈت جاتا ہے بینظیر کو۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ خان صاحب کی دماغی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج انھیں آگے لے کر آئی۔ انکو الیکٹیبلز کے نام پر اپنے گدھے دیئے۔ جن کی شکلیں اب وقت کے ساتھ خود ہی سامنے آگئی ہیں۔ یہاں تجھے یاد ہوگا کہ جب میں عثمان بزدار اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کے بارے میں لکھتا تھا تو کتنی گالیاں مجھے اندھا دھند پڑا کرتی تھیں، لیکن آج ان سے پوچھو کہ کہاں ہیں وسیم اکرم پلس اور کہاں ہیں خٹک صاحب؟ تو انکی بولتی بند ہوجاتی ہے۔
خیر خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، آپ یہاں کرپشن کا خاتمہ کریں، بس یہ دو چار بندے ہمارے رکھ لیں، یہ ضروری ہیں۔ خان بھی یہی کہتا رہا اور ٹھیک کہتا تھا کہ نواز اور زرداری کے خلاف جو کیس نیب میں لگے ہوئے تھے ان میں ایک بھی اس کی حکومت کے دور میں نہیں بنا، بلکہ یہ سارے کیس یہ خود نوّے کی دہائی میں سیف الرّحمٰن نے پیپلز پارٹی کے خلاف اور رحمان ملک نے نون لیگ کے خلاف بنائے تھے۔
خیر، اصل حرامی پن زرداری خبیث کا ہے، اس نے بینظیر کو مروا کر اسکے کام سے یہ فائدہ اٹھایا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاقِ جمہوریت کے بعد ایک دوسرے کو لائسنس دے دیا کہ اپنے اپنے دور میں خوب کباڑہ کرو۔ ہم آپکو نہیں چھیڑیں گے اور آپ ہمکو نہیں چھیڑنا۔ سندھ اور پنجاب کا بٹوارہ کرلیا گیا۔
اس سب میں عمران کی اہمیت ایک اور جگہہ واضع ہو رہی تھی، وہ تھی اسکی پٹھان قومیت اور کے پی کے کے بگڑتے حالات۔ اسکا توڑ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے پاس نہیں۔ لہٰذا اس مرتبہ بھی کے پی کے کو با دِل نخواستہ خان کو ہی دینا پڑگیا۔
بہرحال، خان صاحب اقتدار میں تو آگئے، لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ تو جب خان صاحب اس قبر میں اترے تو انھیں معلوم ہوا کہ پاکستان کی جمہوریت میں وزیر اعظم کچھ نہیں ہوتا، سب کچھ پارلیمنٹ کے ووٹ ہوتے ہیں۔
خان کے آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے گرگوں نے اپنا اپنا کام شروع کردیا۔ خٹک، بزدار اور سب سے بڑھ کر جہانگیر ترین نے اپنے ہاتھ پاوں سیدھے کرنا شروع کردیئے۔ خان ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوتے ایک وقت میں تنگ آگیا۔
پھر اس نے وہ سرکشی شروع کی جسکو آپ نواز شریف کے کھاتے میں ڈال رہے ہو۔
جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے عوام میں خان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دوبارہ حرامی پن کا مظاہرہ کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس پہنچ گئے کہ صاحب آپ ہمیں نوکری پر رکھ لیں، ہم خان کی طرح بلکل بغاوت نہیں کرینگے۔ کیونکہ ’’اب تو اتنی بھی میّسر نہیں میخانے میں، جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں‘‘۔ آپ کا حصّہ بقدرِ جُسّہ آپکو ملتا رہے گا۔
اس کے بعد خان کی حکومت اور اس کے بعد سے آجتک کیا ہورہا ہے، سب کو نظر آرہا ہے۔
بہرحال، طاقت کے نشے میں چوُر یہ اسٹیبلشمنٹ شائد یہ سوچ رہی تھی کہ پہلے کی طرح اب بھی ہم جب شہیدوں کے خون کا نعرہ لگائیں گے تو عوام خان کو بھول کر انکو پھر سے سیلوٹ مارے گی۔ لیکن خان بھلے بیوقوف سہی، لیکن ان کی سوچ سے زیادہ دلیر آدمی نکلا۔ اس نے انکی ایسی کی تیسی پھیر کر رکھ دی اور انکا یہ غرور جو یہ اس وطن کی خاک بیچ بیچ کر کماتے تھے، کو دو منٹ میں خاک کردیا۔
خان کی اب بھی چھ سو کمزوریاں ہیں، لیکن اسکی کچھ خوبیاں بھی ہیں جو بے پاکستانی سیاست میں بے مثال ہیں۔
کیونکہ خان تو صرف ایک مہرہ ہے قدرت کا۔ قدرت کا اپنا نظام اپنی جگہہ اپنی چالیں چل رہا ہے۔ خان کو سپورٹ کرنے والےسب لوگ خان کی حکومت یا کارکردگی یا اسکی کرکٹ کے فین نہیں ہیں، بلکہ بہت سارے وہ لوگ ہیں جو اس نظام کے خلاف ہیں اور انکو خان کی صورت میں ایک نجات نظر آتی ہے۔
ابھی دو دِن پہلے ڈاکٹر ایڈم نے ایک ویڈیو پوست کی تھی، ڈاکٹر منیر خٹک کی، جو انتہائی پڑھے لکھے اور قابل انسان ہیں۔ ایسے بندے سے کوئی یہ توقع نہیں رکھتا کہ خان کی خوبصورتی، یا اسکی کرکٹ کے فین ہونگے۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ ہم عمران خان کو شخصی طور پر سپورٹ نہیں کرتے، بلکہ ہم عمران کے نام کی آئیڈیالوجی کو سپورٹ کرتے ہیں، کیونکہ پچھلے چالیس سال میں ہم نے اس ملک کا بھرتا بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ خان کا ہمیں بھی معلوم ہے کہ سو خرابیاں ہیں اس بندے میں اور اب اگر اسکی عمر باہتر برس کی ہے تو اسمیں اب شائد زیادہ سے زیادہ دس سال ہی رہ گئے ہونگے کام کرنے کے لیئے۔ لیکن اس کے بعد کیا؟
لہٰذا وہ اس نظریئے کو سپورٹ کرتے ہیں جہاں میرٹ پر کام کیئے جائیں، عدلیہ سے لوگوں کو انصاف ملے اور ایسے لوگ اوپر آئیں جو کام کرنے کی نیّت رکھتے ہیں، نہ کے اپنے کاروبار چلانے کی۔
بہرحال، قدرت اپنا کام کر رہی ہے، کیونکہ بہت سے مؑصوم لوگوں کا خون، آہ وہ پکار اور انکی بد دعائیں، جو اس نظام کی نذر ہوگئے، اپنا رنگ لے کر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ انھوں نے تو خان اور اسکی پارٹی کو شدّت سے قابو کر ہی لیا تھا، لیکن دوسری جانب امریکہ کا الیکشن ان کے لیئے قدرت کا بہت بڑا پیغام ہے کہ اب رسّی کھینچی جارہی ہے۔
اور تو ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچ رہا ہے؟
یہ پڑھ کر شائد آج ایڈمن کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور دل گداز ہوگیا، یعنی تیرے ٹیگ کرنے پر آج مجھے نوٹیفیکیشن مل گیا ہے۔ سمجھ تو گیا ہوگا نا بھائی؟
اب تیرے جانے پر یہ سیاست پی کے والے بھی اداس لگ رہے ہیں۔ کیا ہوگا ان بیچاروں کا تیرے جانے کے بعد؟
تیری جیسی پڑھی لکھی سوچ اور گھر سے اچھی تربیت ہوئے پٹواری کا ملنا بھی تو ممکن نہیں ناں
اور تم جیسے جنرل کے ڈفروں کے لیے ایک سچائی ہے۔۔۔۔۔اپنی پرانی یہ پچھلے سال کی بکوآس دیکھو تو تمہیں خود سے شرم آئے گی ۔۔۔تمہاری بكواس کے مطابق عمران خان کا تو فاوجی ٹریل ہو گا اور اب تمہارا جنرل اس کی پارٹی سے ۱-۱ بات کر رہا ہے۔۔۔۔۔لانٹی ڈفر
مجھے سمجھ لگی ہے بھائی میرے - جو بات تمہیں سمجھ نہیں آ رہی وہ یہ ہے کہ عمران نہیں تو عمرانیات نہیں - اس میں پی ٹی آئی بھی آتی ہے
سو فیصد غلط تجزیہ ہےتیرا تجزیہ کافی حد تک ٹھیک ہے، لیکن اصل بات اس سے بھی پہلے سے شروع ہوتی ہے۔
اصل مسئلہ بینظیر کر کے گئی تھی ان کے لیئے، جس جرم کی پاداش میں اسے سرِعام مروا دیا گیا۔
بینظیر نے اپنی نوّے کی دہائی کی سیاست سے سیکھ لیا تھا کہ کیسے اسٹیبلشمنٹ ان دونوں کے کندھوں پر باری باری ہاتھ رکھ کر اپنا الّو سیدھا کرتی ہے۔ لہٰذا اس نے ایک فارمولا تیار کیا، جس کے بعد یہاں مارشل لاء کے لیئے دروازے بند کردیئے گئے تھے۔
اس نے چارٹر آف ڈیموکریسی اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے اس مداخلت کا نوّے فیصد قلع قمع کردیا تھا۔ لیکن زردادری حرامی نے پیچھے سے اسے بھی چونا لگا دیا۔ بات یہی ہوئی تھی کہ جو مرضی ہوجائے، یہ دونوں بڑی پارٹیاں یعنی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی آپس میں جھگڑے ڈال کر اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار پر شب خون نہیں مارنے دیں گے۔
اسکی سزا بینظیر کو تو فوراً ہی مل گئی، اور بعد میں بھی اسمبلی دس سال تک نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ پانچ پانچ سال اپنی حکومت کی۔ حالانکہ دونوں مرتبہ اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کے ذریعے ان کے وزیر اعظم بھی تبدیل کروائے، لیکن ان کی حکومت کو پھر بھی گھر نہیں بھیج سکی۔
تو اصل کریڈت جاتا ہے بینظیر کو۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ خان صاحب کی دماغی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فوج انھیں آگے لے کر آئی۔ انکو الیکٹیبلز کے نام پر اپنے گدھے دیئے۔ جن کی شکلیں اب وقت کے ساتھ خود ہی سامنے آگئی ہیں۔ یہاں تجھے یاد ہوگا کہ جب میں عثمان بزدار اور پرویز خٹک جیسے لوگوں کے بارے میں لکھتا تھا تو کتنی گالیاں مجھے اندھا دھند پڑا کرتی تھیں، لیکن آج ان سے پوچھو کہ کہاں ہیں وسیم اکرم پلس اور کہاں ہیں خٹک صاحب؟ تو انکی بولتی بند ہوجاتی ہے۔
خیر خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، آپ یہاں کرپشن کا خاتمہ کریں، بس یہ دو چار بندے ہمارے رکھ لیں، یہ ضروری ہیں۔ خان بھی یہی کہتا رہا اور ٹھیک کہتا تھا کہ نواز اور زرداری کے خلاف جو کیس نیب میں لگے ہوئے تھے ان میں ایک بھی اس کی حکومت کے دور میں نہیں بنا، بلکہ یہ سارے کیس یہ خود نوّے کی دہائی میں سیف الرّحمٰن نے پیپلز پارٹی کے خلاف اور رحمان ملک نے نون لیگ کے خلاف بنائے تھے۔
خیر، اصل حرامی پن زرداری خبیث کا ہے، اس نے بینظیر کو مروا کر اسکے کام سے یہ فائدہ اٹھایا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے میثاقِ جمہوریت کے بعد ایک دوسرے کو لائسنس دے دیا کہ اپنے اپنے دور میں خوب کباڑہ کرو۔ ہم آپکو نہیں چھیڑیں گے اور آپ ہمکو نہیں چھیڑنا۔ سندھ اور پنجاب کا بٹوارہ کرلیا گیا۔
اس سب میں عمران کی اہمیت ایک اور جگہہ واضع ہو رہی تھی، وہ تھی اسکی پٹھان قومیت اور کے پی کے کے بگڑتے حالات۔ اسکا توڑ اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے پاس نہیں۔ لہٰذا اس مرتبہ بھی کے پی کے کو با دِل نخواستہ خان کو ہی دینا پڑگیا۔
بہرحال، خان صاحب اقتدار میں تو آگئے، لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ قبر کا حال مردہ ہی جانتا ہے۔ تو جب خان صاحب اس قبر میں اترے تو انھیں معلوم ہوا کہ پاکستان کی جمہوریت میں وزیر اعظم کچھ نہیں ہوتا، سب کچھ پارلیمنٹ کے ووٹ ہوتے ہیں۔
خان کے آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے گرگوں نے اپنا اپنا کام شروع کردیا۔ خٹک، بزدار اور سب سے بڑھ کر جہانگیر ترین نے اپنے ہاتھ پاوں سیدھے کرنا شروع کردیئے۔ خان ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہوتے ایک وقت میں تنگ آگیا۔
پھر اس نے وہ سرکشی شروع کی جسکو آپ نواز شریف کے کھاتے میں ڈال رہے ہو۔
جبکہ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور نون لیگ نے عوام میں خان کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے دوبارہ حرامی پن کا مظاہرہ کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس پہنچ گئے کہ صاحب آپ ہمیں نوکری پر رکھ لیں، ہم خان کی طرح بلکل بغاوت نہیں کرینگے۔ کیونکہ ’’اب تو اتنی بھی میّسر نہیں میخانے میں، جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں‘‘۔ آپ کا حصّہ بقدرِ جُسّہ آپکو ملتا رہے گا۔
اس کے بعد خان کی حکومت اور اس کے بعد سے آجتک کیا ہورہا ہے، سب کو نظر آرہا ہے۔
بہرحال، طاقت کے نشے میں چوُر یہ اسٹیبلشمنٹ شائد یہ سوچ رہی تھی کہ پہلے کی طرح اب بھی ہم جب شہیدوں کے خون کا نعرہ لگائیں گے تو عوام خان کو بھول کر انکو پھر سے سیلوٹ مارے گی۔ لیکن خان بھلے بیوقوف سہی، لیکن ان کی سوچ سے زیادہ دلیر آدمی نکلا۔ اس نے انکی ایسی کی تیسی پھیر کر رکھ دی اور انکا یہ غرور جو یہ اس وطن کی خاک بیچ بیچ کر کماتے تھے، کو دو منٹ میں خاک کردیا۔
خان کی اب بھی چھ سو کمزوریاں ہیں، لیکن اسکی کچھ خوبیاں بھی ہیں جو بے پاکستانی سیاست میں بے مثال ہیں۔
کیونکہ خان تو صرف ایک مہرہ ہے قدرت کا۔ قدرت کا اپنا نظام اپنی جگہہ اپنی چالیں چل رہا ہے۔ خان کو سپورٹ کرنے والےسب لوگ خان کی حکومت یا کارکردگی یا اسکی کرکٹ کے فین نہیں ہیں، بلکہ بہت سارے وہ لوگ ہیں جو اس نظام کے خلاف ہیں اور انکو خان کی صورت میں ایک نجات نظر آتی ہے۔
ابھی دو دِن پہلے ڈاکٹر ایڈم نے ایک ویڈیو پوست کی تھی، ڈاکٹر منیر خٹک کی، جو انتہائی پڑھے لکھے اور قابل انسان ہیں۔ ایسے بندے سے کوئی یہ توقع نہیں رکھتا کہ خان کی خوبصورتی، یا اسکی کرکٹ کے فین ہونگے۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ ہم عمران خان کو شخصی طور پر سپورٹ نہیں کرتے، بلکہ ہم عمران کے نام کی آئیڈیالوجی کو سپورٹ کرتے ہیں، کیونکہ پچھلے چالیس سال میں ہم نے اس ملک کا بھرتا بنتے ہوئے دیکھا ہے۔ خان کا ہمیں بھی معلوم ہے کہ سو خرابیاں ہیں اس بندے میں اور اب اگر اسکی عمر باہتر برس کی ہے تو اسمیں اب شائد زیادہ سے زیادہ دس سال ہی رہ گئے ہونگے کام کرنے کے لیئے۔ لیکن اس کے بعد کیا؟
لہٰذا وہ اس نظریئے کو سپورٹ کرتے ہیں جہاں میرٹ پر کام کیئے جائیں، عدلیہ سے لوگوں کو انصاف ملے اور ایسے لوگ اوپر آئیں جو کام کرنے کی نیّت رکھتے ہیں، نہ کے اپنے کاروبار چلانے کی۔
بہرحال، قدرت اپنا کام کر رہی ہے، کیونکہ بہت سے مؑصوم لوگوں کا خون، آہ وہ پکار اور انکی بد دعائیں، جو اس نظام کی نذر ہوگئے، اپنا رنگ لے کر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ انھوں نے تو خان اور اسکی پارٹی کو شدّت سے قابو کر ہی لیا تھا، لیکن دوسری جانب امریکہ کا الیکشن ان کے لیئے قدرت کا بہت بڑا پیغام ہے کہ اب رسّی کھینچی جارہی ہے۔
اور تو ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوچ رہا ہے؟
یہ پڑھ کر شائد آج ایڈمن کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور دل گداز ہوگیا، یعنی تیرے ٹیگ کرنے پر آج مجھے نوٹیفیکیشن مل گیا ہے۔ سمجھ تو گیا ہوگا نا بھائی؟
اب تیرے جانے پر یہ سیاست پی کے والے بھی اداس لگ رہے ہیں۔ کیا ہوگا ان بیچاروں کا تیرے جانے کے بعد؟
تیری جیسی پڑھی لکھی سوچ اور گھر سے اچھی تربیت ہوئے پٹواری کا ملنا بھی تو ممکن نہیں ناں
سو فیصد غلط تجزیہ ہے
اگر مشرف بیغیرتی نہ کرتا تو عوام نے بہت پہلے بینظیر اور نوازشریف کو ریکجیکٹ کرکے کسی اور کو اقتدار دے دینا تھا
میں نے بھی یہی عرض کی تھی کہ اگر مشرف مارشل لا نہ لگاتا تو عوام بینظیر اور نوازشریف دونوں سے تنگ پڑ جاتے اور دونوں کو تین تین باریاں دینے کے بعد کسی اور کو باری دیتے جو کہ یقینا عمران خان ہی ہوتامیں نے یہ کہیں نہیں کہا کہ نواز یا بی بی کی حکومت مشرّف سے بہتر تھی یا انھوں نے کرپشن نہیں کی۔ میں نے خود لکھا ہے کہ نواز اور زرداری کے میثاقِ جمہوریت کے بعد انھوں نے ایک دوسرے کی کرپشن کو دیکھنا چھوڑ دیا تھا۔
لیکن آپ کی یہ ریجیکٹ کرنے کی تھیوری غلط ہے۔ ۲۰۰۸ کا ووٹ پیپلز پارٹی کو ہی پڑا تھا اور بینظیر کے سانحے کی وجہ سے ہی پڑا تھا۔ ۲۰۱۳ کا ووٹ نواز کو ہی پڑا تھا، دھاندھلی بھی ہوئی تھی، لیکن پھر بھی لوگوں نے ووٹ نواز کو ڈالے تھے، بہ نسبت ۲۰۲۳ کے الیکشن کے، جب ان کے سارے ووٹ ہی جعلی اور فارم ۴۷ کی پیداوار تھے۔
بہرحال، ۲۰۰۸ کے میثاقِ جمہوریت کا یہ ضرور اثر پڑا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کی جمہوری حکومتوں پر شب خون مارنے کی پرانی عادت کو روک دیا گیا تھا۔ اور یہ اس دس سال کی جمہوریت کا ہی نتیجہ تھا کہ پھر عمران خان کے حق میں لوگوں نے ووٹ ڈالا۔
اس ملک کی بدقسمتی یہی رہی ہے کہ یہاں کبھی جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا۔ ہمیشہ مداخلت اور اس کے بعد اپنے ہی بنائے ہوئے لٹیروں کو پانچ یا چھ سال کے لیئے جمہورا بنا کر آگے کردینا اور جب لوگ ان سے بھی تنگ آجائیں تو اگلے دس سال کے لیئے خود واپس آکر بیٹھ جانا۔
جمہوریت کا عمل ایک تسلسل مانگتا ہے۔ خاص کر پاکستان جیسے ملک میں۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے اینٹوں کا بھٹہ لگایا جاتا ہے تو شروع کی اینٹیں کچھ کچی پکی ہوتی ہیں، کچھ ٹیڑھی میڑی ہوتی ہیں، لیکن جب بھٹہ چلتا رہتا ہے تو آہستہ آہستہ اینٹیں بھی ٹھیک بن کر نکلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|