
سیاست سے ہٹ کر چین اور امریکا ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ایک دوسرے کے سخت حریف رہے ہیں۔ حال ہی میں چین نے اپنا نیا مصنوعی ذہانت (اے آئی) ماڈل "ڈیپ سیک" متعارف کرایا ہے، جس نے نہ صرف عالمی توجہ حاصل کی ہے بلکہ امریکا کی تشویش بھی بڑھا دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، چینی ٹیکنالوجی کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈیپ سیک کچھ معاملات میں اوپن اے آئی کے مشہور چیٹ جی پی ٹی سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ساتھ ہی، اس کی قیمت بھی کہیں کم ہے، جو اسے زیادہ مؤثر اور سستی ٹیکنالوجی بناتی ہے۔
میٹا کے اے آئی ماہرین لیکون نے ڈیپ سیک پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈیپ سیک کی کامیابی سے چین اے آئی ٹیکنالوجی میں امریکہ کو شکست دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی دراصل اوپن سورس ماڈلز (ہر ایک کے لیے دستیاب) کی طاقت کو ظاہر کرتی ہے، جو نجی ماڈلز (کمپنیوں کی ملکیت) سے بہتر ہو رہے ہیں۔
ین لیکون کے مطابق، ڈیپ سیک نے اوپن ریسرچ اور اوپن سورس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے نئے آئیڈیاز پیش کیے اور انہیں دوسرے لوگوں کے کام کے اوپر بنایا۔ چونکہ ان کا کام شائع اور کھلے ذرائع پر مبنی ہے، ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ڈیپ سیک نے اے آئی ماڈلز استعمال کرنے کی لاگت کو نمایاں طور پر کم کر دیا ہے۔ یہ کامیابی اس خیال کو چیلنج کرتی ہے کہ اعلیٰ درجے کے اے آئی سسٹمز کو بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر کئی بلین ڈالرز اور کمپیوٹنگ طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔
چین کی یہ کامیابی نہ صرف ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہے، بلکہ یہ امریکہ کے لیے ایک چیلنج بھی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کی دوڑ جاری ہے، اور ڈیپ سیک جیسے منصوبے اس دوڑ کو اور تیز کر رہے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا چین اپنی اس کامیابی کو برقرار رکھتے ہوئے ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی برتری قائم کر پاتا ہے یا امریکہ اپنی تحقیق اور ترقی کے ذریعے اس چیلنج کا جواب دیتا ہے۔ یہ دوڑ نہ صرف دونوں ممالک کے لیے اہم ہے، بلکہ یہ عالمی ٹیکنالوجی لینڈ اسکیپ کو بھی متاثر کرے گی۔
- Featured Thumbs
- https://i.imghippo.com/files/WDp2347c.jpg